کینیا کے پرائمری اسکول میں خوفناک آتشزدگی؛ 17 ہلاک اور 13 طلبا زخمی

2699549-kenyaschoolcaughtfire-1725611456-580-640x480.jpg

نیروبی: کینیا میں بورڈنگ اسکول کے ہاسٹل میں خوفناک آگ بھڑک اُٹھی جس میں بری طرح جھلس کر 5 سے 12 سال کے 17 طالب علم ہلاک اور 13 شدید زخمی ہوگئے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ افسوناک سانحہ کینیا میں نیری کاؤنٹی کے ہل سائیڈ اینڈاراشا پرائمری اسکول میں پیش آیا۔ زیادہ تر لاشیں ناقابل شناخت ہیں۔

زخمیوں کو اسپتال میں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے جن میں سے 7 کی حالت نازک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

جس پرائمری اسکول میں آگ لگی وہاں تقریباً 800 طلبا زیر تعلیم تھے جن میں سے اکثریت ہاسٹل میں ہی رہتی تھی۔ طلبا کی عمریں 5 سے 12 سال کے درمیان ہیں۔

پولیس کی ترجمان ریسیلا اونیاگو نے بتایا کہ آگ لگنے کی وجہ کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

کینیا کے صدر ولیم روٹو نے اس سانحہ کو “تباہ کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

کینیا ریڈ کراس کا علمہ طلبا، اساتذہ اور متاثرہ خاندانوں کو نفسیاتی معاونت کی خدمات فراہم کر رہا ہے اور اس نے اسکول میں ایک ٹریسنگ ڈیسک بھی قائم کیا ہے۔

کینیا میں بورڈنگ اسکولوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جہاں آگ لگنا ایک عام سی بات ہے۔

والدین کا خیال ہے کہ بورڈنگ اسکول میں ایڈمیشن کرانے سے بچوں کو پڑھنے کے لیے زیادہ وقت ملتا ہے اور طویل سفر کی تھکان بھی نہیں ہوتی۔

یاد رہے کہ 2016 میں نیروبی کے ایک گرلز ہائی اسکول میں آگ لگنے سے 9 طالبات ہلاک ہو گئیں۔ اس کے اگلے ہی برس ایک اور ہائی اسکول میں آگ لگنے سے 10 طالب علم ہلاک ہوگئے تھے۔

اسکولوں میں آگ لگنے کا سب سے ہولناک واقعہ 2001 میں نیروبی کے سیکنڈری اسکول کے ہاسٹل میں پیش آیا تھا جس میں 58 طلبا ہلاک ہوگئے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔