حزب اللہ: فؤاد شکر کی شہادت پر وال اسٹریٹ کی رپورٹ جھوٹ کا پلندا

171346931.jpg

حزب اللہ لبنان نے ایک بیان میں اپنے مجاہد کمانڈر فواد شکر کی شہادت کے بارے میں امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل” کی رپورٹ کی تردید کی ہے۔

حزب اللہ کے میڈیا کمیونیکیشن یونٹ نے ایک بیان میں فواد شکر کی شہادت کے بارے میں وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے بے بنیاد اور جھوٹ سے بھری رپورٹ قرار دیا ہے۔

اس بیان میں کہا گیا ہے: اس اخبار کے تین رپورٹروں میں سے جن کے نام رپورٹ میں ذکر کئے ہیں، وہ کبھی حزب اللہ کے کسی عہدیدار سے ملے ہی نہيں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ جھوٹ اور بے بنیاد ہے اور اس میں جن ذرائع کا حوالہ دیا گیا ہے وہ بھی رپورٹ تیار ہونے والے کے ذہن کی تخلیق ہے اور اس کا مقصد صیہونیوں کے حق میں پروپگنڈہ کرنا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل اور لبنان اور عرب دنیا کے کچھ اخبارات کی جانب سے اس قسم کی رپورٹ کو شائع کرنا دراصل صیہونی حکومت کی خدمت کرنا ہے کیونکہ ان آخبارات نے ذرہ برابرہ بھی تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہيں کی۔

وال اسٹریٹ جرنل نے فواد شکر کے قتل سے متعلق ایک رپورٹ میں حزب اللہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ شکر کو ایک شخص کی فون کال موصول ہوئی جس نے ان سے کہا تھا کہ وہ اپنی رہائش گاہ کی ساتویں منزل پر جائيں اور وہاں جانے کے بعد انہيں قتل کر دیا گیا۔

اس اخبار نے دعوی کیا کہ جب وہ ساتویں منزل پر گئے تو اسرائیلی راکٹوں نے مذکورہ اپارٹمنٹ اور اس کے نیچے کی تین منزلوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں شکر، ان کی اہلیہ، 2 خواتین اور 2 بچے شہید اور 70 سے زائد زخمی ہوگئے۔

اس اخبار نے اہلکار کا نام ظاہر کیے بغیر اس کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا کہ فواد شکر کو عمارت کی ساتویں منزل پر لے جایا گیا، جہاں انہيں اطراف کی عمارتوں کے درمیان نشانہ بنانا آسان تھا اور انہيں غالبا کسی ایسے شخص کے ذریعے نشانہ بنایا گيا ہے جو حزب اللہ کے داخلی رابطہ چینل سے جڑنے میں کامیاب ہوا تھا۔

لبنان کی حزب اللہ کے اہم کمانڈر فواد شکر حال ہی جنوبی بیروت میں صیہونی حکومت کے ڈرون حملے میں شہید ہو گئے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔