ڈیٹا ایکس چینج، فن ٹیک اور دستاویزی معیشت
دنیا تیزی سے سافٹ ہورہی ہے۔ یعنی پہلے ہر چیز کی اہمیت اس کے مادی وجود کی وجہ سے ہوتی تھی۔ مگر مادی وجود کے بجائے اب چیزیں سافٹ ویئر میں تبدیل ہورہی ہیں۔ ایسا ہی کرنسی کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ کرنسی بھی سافٹ ہورہی ہے۔ اس کی منتقلی بھی سافٹ ہورہی ہے اور اس کے قرض بھی سافٹ ہورہے ہیں۔
اب انسان کےلیے دولت کے معنی بھی تبدیل ہورہے ہیں، سونے چاندی، زمین گھر کے ساتھ ساتھ انسان کی سافٹ دولت بھی تیزی سے تشکیل پارہی ہے۔ اور اس نئی دولت کو ڈیٹا کہتے ہیں۔ جس کے پاس جتنا ڈیٹا بیس ہے، وہ اتناہی امیر انسان یا ادارہ ہے۔
چند دن قبل بچوں نے پیزا کھانے کی ضد کی تو انٹرنیٹ پر سرچ کیا کہ میرے گھر کے قریب ترین کون سا پیزا ریسٹورنٹ موجود ہے۔ یہ سرچ گوگل پر کی اور ہم پیزا کھانے پہنچ گئے۔ جنریشن زی کھاتی بعد میں پہلے تصویر لیتی ہے۔ بچوں نے ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے ہی تصاویر لیں اور انہیں فیس بک پر اپ لوڈ کرنے لگے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے فیس بک پروفائل پر ہر دوسری پوسٹ پیزا ریسٹورنٹ سے متعلق آرہی ہے۔ یعنی چند سیکنڈ میں گوگل نے میری معلومات فیس بک کو فروخت کی اور فیس بک نے پیزا کے اشتہارات ارسال کرنا شروع کردیے۔ یہ سب ممکن ہوا ہے ڈیٹا اور اس کے تجزیے سے۔
اس کے بعد میں نے یوٹیوب پر ایک تجربہ کیا۔ اپنے اور اپنی اہلیہ کے موبائل سے ایک ہی پاکستانی ڈرامے کی قسط بہ یک وقت چلائی۔ یوٹیوب نے میرے اور میری بیوی کے موبائل پر الگ الگ نوعیت کے اشتہارات دکھائے۔ یہ اشتہارات ماضی، جنس، مالی حیثیت، عمر، اور براؤزنگ ہسٹری کی بنیاد پر دکھائے جاتے ہیں۔
اسی لیے ہر کمپنی اور ہر ملک کی کوشش ہے کہ وہ اپنا بہتر سے بہتر ڈیٹا بیس قائم کریں۔ امبانی نے اپنے بیٹے کی شادی میں مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس اور فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کو دعوت دی۔ کہنے کو تو وہ شادی کی تقریب میں آئے تھے، مگر خبریں یہ ہیں کہ دنیا کے دنوں بڑے ڈیجیٹل جائنٹس بھارت میں اپنا ڈیٹا سینٹر امبانی کے ذریعے قائم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ جس سے امبانی کو اپنے دیگر کاروبار نہ صرف ہندوستان کے اندر بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں میں پھیلانے میں مدد ملے گی۔ اور وہ اس ڈیٹا کی بنیاد پر اپنی مصنوعات کے خریداروں کی تلاش باآسانی کرسکے گا۔
صارفین کے ڈیٹا کے حوالے سے ایک کانفرنس ڈیجیٹل سپلائی چین فنانسنگ کراچی میں منعقد ہوئی، جس میں پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ظفر مسعود کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت سارا ڈیجیٹل ڈیٹا موجود ہے، مگر اس ڈیٹا سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم ڈیٹا حکومت اور اس کے ذیلی اداروں کے پاس ہے۔ جس میں نادرا، پاور یوٹیلٹیز جبکہ نجی شعبے میں پاور یوٹیلٹیز اور ٹیلی کام کمپنیاں شامل ہیں۔ ظفر مسعود کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس نادرا کا بہت ڈیٹا ہے، جس کو نجی شعبے کو فراہم بھی کیا جاتا ہے مگر اس ڈیٹا تک رسائی بہت مہنگی ہے۔ حکومت کو نادرا کو ایک منافع بخش ادارے کے بجائے ایک یوٹیلٹی کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔
ظفر مسعود کا کہنا تھا کہ ملک میں مالیاتی صنعت اور دیگر صارف خدمات کےلیے مخلتف اداروں میں موجود ڈیٹا بیس کو ایک جگہ جمع کرنا ہوگا اور اس مقصد کےلیے وہ ڈیٹا ایکس چینج کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ ظفر مسعود کا کہنا تھا اس ڈیٹا کے یکجا کرنے سے مالیاتی صنعت کے علاوہ حکومت کو بھی فائدہ ہوسکتا ہے۔ مالیاتی صنعت اس سے اپنے صارفین کی ضروریات اور طلب کا درست اندازہ لگا کر اس کے حساب سے مالیاتی مصنوعات کو ڈیزائن کرسکتے ہیں۔ جبکہ دیگر خدمات فراہم کرنے والے ادارے اس ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون سے صارفین کو کس قسم کی خدمات کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں بینکاری کی مختلف سطح ہیں جیسا کہ بڑے کمرشل اور اسلامی بینکس۔ یہ زیادہ تر بڑے کاروباری اداروں اور اچھی مالی حیثیت رکھنے والے افراد کو مالی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مائیکرو فنانس بینکس جو کہ چھوٹے قرضے دیتے ہیں۔ مگر اب ٹیکنالوجی نئی طرح کے مالیاتی ادارے بھی متعارف کرارہی ہے، جن کو فن ٹیک یعنی مالیاتی ٹیکنالوجی کے کاروبار کہا جاتا ہے۔ یہ فن ٹیک اب تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے راست کے نام سے مالیاتی لین دین کا نیا نظام متعارف کرایا گیا ہے، جس میں صارفین بغیر کسی اضافی لاگت کے اپنا لین دین ڈیجیٹل ذرائع سے کرسکتے ہیں
فن ٹیک کو بڑے شہروں کے بجائے چھوٹے چھوٹے دیہات اور قصبوں پر بھی توجہ دینا ہوگی، جہاں بینکاری سہولت دستیاب نہیں۔ لوگ روزمرہ کے اخراجات کی ادائیگی ڈیجیٹل ذرائع سے کریں، اس کے ساتھ ساتھ دکاندار بھی اپنی ادائیگیاں ڈیجیٹل چینل کے ذریعے کریں۔ اور اگر انہیں ضرورت ہو تو ان کے ڈیٹا کی بنیاد پر کم سے کم مالیت کا قرضہ چند سیکنڈ میں منظور کرکے فراہم کیا جاسکے۔ یہ قرضہ چند دن سے لے کر چند ہفتوں کی مدت کا ہوسکتا ہے۔
ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کے فروغ سے نقد لین دین کی حوصلہ شکنی ہوگی اور کرنسی نوٹوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے بجائے رقوم ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں سافٹ ذرائع سے منتقل ہوتی رہیں گی۔ یہ امید کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں ہر چھوٹی سے چھوٹی دکان اور ٹھیلے پر ایک کیو آر کوڈ اسکینر موجود ہوگا جس کے ذریعے خریدار اپنی ادائیگیاں کررہے ہوں گے۔ یہ کام جتنی جلدی ہوگا معیشت کو دستاویزی کرنے میں اسی قدر مدد ملے گی۔ جس کےلیے ڈیٹا اور اس کا تجزیہ اہم جز ہوگا۔