چینی آئی پی پیز کا کیپسٹی چارجز پر نظرثانی سے انکار

2673111-electricityxx-1721804569-273-640x480.jpg

اسلام آباد: پاکستانی ٹیم سی پیک اور نیو کلیئر پاور پلانٹس کے پروجیکٹس سے متعلق لیے گئے قرضوں کی میعاد بڑھانے اور ان قرضوں پر سود کی شرح کم کرانے کے لیے بیجنگ گئی ہے۔

تاہم چین کی تین بڑی پاور کمپنیوں نے بجلی خریداری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔

تین چینی کمپنیوں کے نمائندوں نے کہا کہ انرجی پر لیے گئے قرضے کو ری اسٹرکچر کرنے کا فیصلہ چینی بینکوں اور پاکستانی حکام کے درمیان ہونا چاہیے لیکن انھوں نے اپنے منافع اور کیپیسٹی پیمنٹ کی ان شرائط وضوابط میں کسی تبدیلی کے امکان کو مسترد کر دیا ہے جن پر پاور پرچیز ایگریمنٹ کے تحت اتفاق ہوا تھا۔

پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب چینی حکام سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گئے تاکہ اس قرض کی دوبارہ واپسی کی مدت میں توسیع کرا سکیں ۔

یہ وہ قرض تھا جو حکومت پاکستان اور چینی کمپنیوں نے پاور پلانٹ نصب کرنے کے لیے چینی مالیاتی اداروں سے لیا تھا۔ پاکستان نے نیو کلیئر پاور پلانٹس لگانے کے لیے اور چینی کمپنیوں نے سی پیک کے تحت پاور پلانٹس لگانے کے لیے قرض لیا تھا۔

ان دونوں مدات کے قرض کی قدر تقریبا 17 ارب ڈالر بنتی ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان نے پیشکش تیار کی ہے کہ انرجی کے شعبہ کے قرض کی واپسی کی مدت میں 8 سال کی توسیع کی جائے اور اس کی ادائیگی کو امریکی ڈالر سے چینی ین میں تبدیل کر دیا جائے اور ساتھ ہی اس قرض پر شرح سود کو بھی کم کیا جائے۔

اگر چینی حکام نے پاکستانی تجویز کو مان لیا تو اس سے پاکستان میں بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 6 سے 7 روپے کمی آسکتی ہے۔ صرف چینی پاور پلانٹس کی بجلی کی قیمت میں 3 سے 4 روپے یونٹ کمی آسکتی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان سود کے انسٹرومنٹس کو بھی ” ایس او ایف آر“ سے بدل کر ” ایس ایچ آئی بی او آر “ کرانا چاہتا ہے۔ یہ ایس او ایف آر “ اور ایس ایچ آئی بی او آر “ سے بھی اوپر ہو جانے والے سود کی بھی کٹوتی چاہتا ہے۔

پاکستان کی درخواست پر عمل ہو جائے تو اس سے مجموعی قرض کی لاگت میں 5 فیصد تک کمی آئے گی۔

اس سال پاکستان کو انرجی کے شعبے کے قرض کی واپسی کے لیے 2 ارب ڈالر سے زیادہ ادائیگی کرنا ہے۔ اس مشکل وقت میں پاکستان اس ادائیگی کو بھی مؤخر کرانا چاہتا ہے۔

پاکستان میں صنعتکاروں اور گھر یلو صارفین کی جانب سے حکومت پر بیکار کیپسٹی کی ادائیگی سے بچنے کے لیے پاور پر چیز ایگری منٹس پر نظر ثانی کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔

تاہم ساہیوال پاور پلانٹ، پورٹ قاسم پاور پلانٹ اور چائنہ حبکو پاور پلانٹ کے عہدیداروں نے بتایا کہ 2014 کی انرجی پالیسی کی بنیاد پر پاور پرچیز ایگریمنٹ کی ادائیگی یا وصولی پر نظر ثانی نہیں کی جاسکتی۔ ان تینوں پاور پلانٹس کی کپیسٹی 3960 میگاواٹ ہے۔

پورٹ قاسم پاور پلانٹ کے چینی نمائندے نے کہا کہ دس سال قبل پاکستان میں 10 سے 14 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ تھی اور کوئی مقامی سرمایہ کار انرجی سیکٹر میں انویسٹمنٹ کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت پاور پالیسی 2014 “ ہی ہماری سرمایہ کاری کی بنیاد بنی تھی۔

چینی پلانٹس کے نمائندوں نے کہا کہ مرکزی مسئلہ انتہائی زیادہ لائن لاسز ، چوری اور کم ریکوری کا ہے۔

سابق عبوری وزیر تجارت گوہر اعجاز نے منگل کو کہا ہے کہ ایف پی سی سی آئی ان IPPS کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ اپنے ٹویٹ میں گوہر اعجاز نے بتایا کہ پیٹیشن میں کہا جائے گا کہ ان نا قابل برداشت حالات میں عدالت مداخلت کرے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے