صیہونی جنگی کابینہ میں خطرے کی گھنٹی

e.jpg

گذشتہ چند دنوں کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے متعدد فوجی اور سکیورٹی عہدیداروں نے صیہونی حکمرانوں کو لبنان سے ممکنہ جنگ کے انتہائی سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے خلاف بھرپور جنگ شروع کرنے کے بارے میں موساد، صیہونی فوج اور صیہونی کابینہ کے درمیان سکیورٹی، میدانی اور ماحولیاتی شعبوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان اختلافات کے باعث صیہونی رژیم فیصلہ سازی کے بحران سے روبرو ہے۔ اگرچہ صیہونی حکمران حزب اللہ لبنان کے خلاف وسیع جنگ کی دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں لیکن زمینی حقائق بہت مختلف ہیں اور ایسی بہت سے ایسے اسباب پائے جاتے ہیں جو حزب اللہ لبنان کے خلاف بھرپور جنگ شروع کرنے میں اسرائیل کیلئے رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا سبب حزب اللہ لبنان کی میزائل طاقت ہے۔ حزب اللہ لبنان کی میزائل طاقت ایک طرف ڈیٹرنس پاور ایجاد کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کے خلاف اہم یتھیار بھی ہے۔

حزب اللہ لبنان کے پاس مختلف قسم کے میزائل موجود ہیں جن کی مختلف رینج ہے اور تقریباً تمام مقبوضہ فلسطین کی سرزمین حزب اللہ کے میزائلوں کی زد میں ہیں۔ دوسری طرف یہ میزائل بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو جیسے صیہونی حکمران جو ابھی تک غزہ جنگ کی دلدل سے نہیں نکل پائے لبنان کے خلاف وسیع جنگ شروع کرنے کی گیدڑ بھبھکیاں مار رہے ہیں جبکہ خود صیہونی رژیم کے فوجی اور سکیورٹی حلقوں نیز سابق سکیورٹی اور فوجی عہدیداران بار بار صیہونی حکمرانوں کو ایسی حماقت سے باز رہنے کی وارننگ دے رہے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کے میزائل کچھ منٹ میں ہی طاقت کے اس توازن کو پوری طرح تبدیل کر سکتے ہیں جو نیتن یاہو نے اپنے وہم میں سوچ رکھا ہے۔ صیہونی فوج اور موساد کے سربراہان بھی اسی بات پر زور دینے میں مصروف ہیں۔

2006ء میں جب حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان 33 روزہ جنگ انجام پائی تو حزب اللہ نے روایتی اور گوریلا دونوں قسم کی جنگی حکمت عملی اپنائی تھی جس کی وجہ سے غاصب صیہونی رژیم پوری طرح ناکام اور بے بس ہو کر رہ گئی تھی۔ لہذا حزب اللہ لبنان کے خلاف بھرپور جنگ شروع کرنے میں اسرائیل کے سامنے ایک اور بڑی رکاوٹ گذشتہ تجربات ہیں۔ اسی طرح اس فیصلے میں ایک اور اہم رکاوٹ غاصب صیہونی رژیم کے اندرونی اختلافات ہیں۔ گذشتہ چند ماہ سے تل ابیب میں یہودی آبادکار ہفتہ وار وسیع احتجاج مظاہرے منعقد کر رہے ہیں۔ مظاہرین شروع میں حماس کے ہاتھوں گرفتار یرغمالیوں کو آزاد کروانے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکں گذشتہ چند ہفتوں سے انہوں نے بنجمن نیتن یاہو کے مستعفی ہونے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ صیہونی رژیم کی ملٹری انٹیلی جنس (امان) کے سابق سربراہ نے نیتن یاہو پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہودی آبادکار موجودہ حکومت کو نہیں مانتے۔

مقبوضہ فلسطین میں فوجی اور سکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور ماہرین اس بات پر زور دے رہے کہ حزب اللہ لبنان کے خلاف ممکنہ بھرپور جنگ میں طاقت کا توازن اسرائیل کے حق میں نہیں بلکہ حزب اللہ کے حق میں ہو گا۔ ان کی نظر میں حزب اللہ سے وسیع جنگ کے نتائج یہودی آبادکاروں کیلئے انتہائی بھیانک اور تباہ کن ظاہر ہوں گے۔ حال ہی میں نیتن یاہو کی جنگی کابینہ سے مستعفی ہونے والے وزیر بنی گانتز نے اس بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ سے کسی بھی ممکن جنگ کی صورت میں اسرائیل کو اس کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔ صیہونی حکمرانوں کے سامنے حزب اللہ سے وسیع جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کرنے میں ایک اور اہم رکاوٹ صیہونی فوج کی موجودہ صورتحال ہے۔ گذشتہ تقریباً 9 ماہ سے جاری غزہ جنگ نے صیہونی فوج کو شدید تھکاوٹ اور افسردگی کا شکار کر دیا ہے۔ صیہونی فوجی میدان جنگ میں جانے کی بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں اور ان کے حوصلے پست ہو چکے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حزب اللہ لبنان کے خلاف بھرپور جنگ شروع کرنے کیلئے صیہونی فوج کو وسیع پیمانے پر فوجی سازوسامان اور افرادی قوت درکار ہو گی۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ریزرو فورس میں شامل افسران جنگ میں شامل ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ صیہونی رژیم کے ایک اعلی سطحی سکیورٹی عہدیدار نے اس بارے میں کہا: "اسرائیلی کابینہ اپنے اقدامات کیلئے اسرائیلی معاشرے سے کوئی مشورہ نہیں لیتی اور اس کی نظر میں یہودی آبادکاروں کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اگر شمالی محاذ پر نئی جنگ شروع ہوتی ہے تو اس کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے اور وہ ہر گز غزہ جنگ جیسی نہیں ہو گی۔ ہمیں ہر گز یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ غزہ جنگ کے دوران اسرائیل کی جنگی کابینہ ٹوٹ چکی ہے اور حتی نیتن یاہو کی کابینہ کے اندر بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں کس طرح حزب اللہ کے خلاف وسیع جنگ شروع کی جا سکتی ہے؟”

اگر غاصب صیہونی رژیم لبنان کے خلاف وسیع جنگ شروع کرنے کی حماقت کرتی ہے تو اس کا نتیجہ پہلے سے واضح ہے۔ تل ابیب کو ایک اور ایسی سنگین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا وہ غزہ جنگ میں سامنا کر چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیلی فوج کو جن خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا وہ غزہ جنگ سے موازنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے خلاف صیہونی فوج کی جنگ سادہ نہیں ہو گی اور انتہائی پیچیدہ ثابت ہو گی۔ اس بات کا اندازہ صرف اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج حزب اللہ لبنان کی فوجی طاقت 2006ء کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کے پاس زیادہ جدید ہتھیار موجود ہیں اور زیادہ تباہی پھیلانے والے گائیڈڈ میزائلوں سے بھی لیس ہے۔ یہ تمام اسباب تل ابیب میں بیٹھی اسرائیل کی جنگی کابینہ کیلئے خطرے کی گھنٹی ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے