ٹیکسز سے بھرپور 18ہزار 877 ارب روپے کا آئندہ مالی سال کا بجٹ قومی اسمبلی سے منظور
قومی اسمبلی نے نئے قرض پروگرام پر عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مزید بات چیت سے قبل آئندہ مالی سال کے لیے حکومت کا بھاری ٹیکس سے بھرپور 18ہزار 877 ارب روپے کا وفاقی بجٹ منظور کرلیا جب کہ جنوبی ایشیا میں سب سے سست رفتار سے ترقی کرنے والا پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے کوشاں ہے۔فنانس بل25-2024 کی منظوری کے بعد ایوان میں ضمنی مطالبات زر کی منظوری دی گئی، قومی اسمبلی نے رواں مالی سال کے لیے 477 ارب چار کروڑ 43 لاکھ روپے سے زائد کے 25 مطالبات زر منظور کرلیے۔قومی اسمبلی نے مالی سال 23-2022 کے لیے 740 ارب 72 کروڑ روپے سے زائد کے 53 ضمنی مطالبات زر منظور کیے جب کہ 141 ارب 20 کروڑ روپے سے زائد کے 26 اضافی مطالبات زر بھی منظور کیے گئے۔
بجٹ کی منظوری کے دوران اپوزیشن کی جانب سے واک آؤٹ کیا گیا جب کہ حکومتی ارکان نے ڈیسک بجاکر وزیرخزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کو مبارکباد دی۔حکومت نے 2 ہفتے قبل ٹیکس بھرا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جب کہ اپوزیشن جماعتوں خصوصاً پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی اس پر شدید تنقید کی گئی تھی۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں فنانس بل پیش کیا جس کی وزیراعظم شہباز شریف نے توثیق کی تھی۔حزب اختلاف کی جماعتوں، خاص طور پر سابق وزیراعظم عمران خان کے حمایت یافتہ اراکین پارلیمنٹ نے بجٹ کو مسترد کر دیا اور اسے شدید مہنگائی کا باعث قرار دیا۔
منگل کو پیپلز پارٹی جس نے ابتدائی طور پر بجٹ بحث کا بائیکاٹ کیا تھا، اس نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ تحفظات کے باوجود فنانس بل کے حق میں ووٹ دے گی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کے اراکین نے بھی تنخواہ دار اور متوسط طبقے کے لوگوں پر ٹیکس عائد کرنے کے حکومتی اقدام پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس بجٹ سے ملک میں مزید مہنگائی ہوگی۔قبل ازیں وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے ایوان کو بتایا کہ ہمیں حقیقت پر بات کرنی چاہیے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیسا ہے، کرنسی اسٹیبل ہے اور یہ ایسے ہی رہے گی، سرمایہ کار واپس آرہے ہیں، پچھلے مہینے غذائی مہنگائی 2 فیصد پر تھی۔انہوں نے کہا کہ معیشت میں استحکام آیا ہے، ہم اس میں مزید بہتری لا رہے ہیں، گروتھ کی طرف جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح ساڑھے نو فیصد نہیں رہ سکتی، ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے، جو ریلیف کی بات کرتے ہیں، اس کو ہم نے ساڑھے 13 فیصد پر لے جانا ہے، اس سلسلے میں لیکج ، کرپشن اور چوری کو روکنا ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کرنی ہیں، اس کی ڈیجیٹلائزیشن کرنی ہے۔