ہد ہد انٹیلی جنس آپریشن، اسرائیل کی اقتصادی شاہرگ حزب اللہ کی زد میں

images-1.jpeg

حال ہی میں حزب اللہ لبنان نے مقبوضہ فلسطین کے اندر تک جاسوس ڈرون طیاروں کے ذریعے ایک شاندار اور کامیابی آپریشن انجام دیا ہے۔ یہ ڈرون طیارے ہد ہد تھے اور ان سے حاصل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز میں اسرائیل کے حساس مراکز اور تنصیبات واضح طور پر دکھائی دے رہی ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے بدھ 19 جون 2024ء کے دن اپنی تقریر میں اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کے خلاف سخت لہجہ اپناتے ہوئے انہیں خطرناک نتائج کی دھمکی دی ہے۔ اس دھمکی نے غاصب صیہونی رژیم کے سیاسی، میڈیا اور حتی فوجی حلقوں میں شدید خوف اور پریشانی پیدا کر دی ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کے خلاف وسیع پیمانے پر بھرپور جنگ اسرائیل کی اجتماعی خودکشی ثابت ہو سکتی ہے۔

حزب اللہ حیفا کو ملیامیٹ کر دے گی

غاصب صیہونی رژیم کی ریزرو فوج کے جنرل اسحاق برک نے اس بارے میں کہا: "چونکہ اسرائیلی فوج بہت چھوٹی ہے لہذا وہ حتی ایک محاذ پر بھی کامیاب نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ ایک ہی وقت میں چھ محاذوں پر جنگ کر سکے۔ اسرائیلی فوج وسائل کی شدید قلت خاص طور پر اسلحہ اور فوجی سازوسامان کی قلت سے روبرو ہے جس کے باعث چند محاذوں پر جنگ اسرائیل کیلئے مہلک اور تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔” دوسری طرف صیہونی حکمران اب تک حزب اللہ لبنان کے ہد ہد ڈرون طیاروں کے جاسوسی آپریشن کے صدمے سے دوچار ہیں۔ ان ڈرون طیاروں نے حیفا بندرگاہ کے اوپر سے اعلی کوالٹی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر ہیڈکوارٹر بھیجیں اور خود بھی آپریشن مکمل کرنے کے بعد واپس جانے میں کامیاب ہو گئے۔ حیفا یونیورسٹی میں مشرق وسطی سے متعلق امور کے ماہر ایمیتسیا بارعام نے اس بارے میں اظہار خیال کیا ہے

وہ کہتے ہیں کہ حزب اللہ سے کسی بھی ممکنہ جنگ کی صورت میں حیفا کے ایک تہائی گھر ملیامیٹ ہو جائیں گے اور حزب اللہ کے ہزاروں میزائل حیفا پر آ کر گریں گے۔ غاصب صیہونی رژیم کے فضائی دفاعی نظام کے سابق سربراہ زویکا ہائموویچ نے بھی میزائل اور ڈرون طیاروں کے شعبے میں حزب اللہ لبنان کی صلاحیتوں کے بارے میں پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "میں دنیا میں بہت سے فوجوں سے آگاہ ہوں لیکن ان میں سے کوئی بھی میزائل اور ڈرون طیاروں کے میدان میں حزب اللہ جتنی توانائیاں نہیں رکھتی۔” صیہونی فوج کے ایک اعلی سطحی افسر، جو شمالی محاذ پر فضائی دفاعی نظام میں کام کرتا رہا ہے، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صیہونی اخبار ہارٹز کو بتایا: "اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام نے بہت کم مواقع پر حزب اللہ کے داغے گئے میزائلوں کو فضا میں نشانہ بنایا ہے۔ حزب اللہ جانتی ہے کہ کس طرح منظم انداز میں میزائل اور ڈرون طیارے فائر کرے تاکہ موثر واقع ہو سکیں۔”

حزب اللہ نے اسرائیلی معیشت کے مرکز کو نشانہ بنایا ہے

حیفا کا علاقہ غاصب صیہونی رژیم کی معیشت کی شاہرگ سمجھا جاتا ہے لہذا حزب اللہ کے ہد ہد ڈرون طیاروں کی جانب سے اس علاقے کی کامیابی سے تصاویر اور ویڈیوز ریکارڈ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی معیشت کی شاہرگ حزب اللہ کی زد میں ہے اور اس بات نے صیہونیوں کو شدید پریشانی کا شکار کر ڈالا ہے۔ غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد، خاص طور پر یمن کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اعلان جنگ کر دینے اور سمندری محاصرے کا اعلان کر دینے کے بعد ایلات اور اسدود بندرگاہوں کی سرگرمیان بہت حد تک کم ہو گئیں۔ اس کے بعد اسرائیل کی اقتصادی سرگرمیاں زیادہ تر حیفا بندرگاہ سے انجام پا رہی تھیں۔ پروڈکشن، تجارت، درآمدات، برآمدات اور دیگر شعبوں میں اسرائیلی معیشت کا 75 فیصد حصہ جبکہ غذائی مواد اور میڈیکل سے مربوط وسائل کا 80 فیصد حصہ حیفا بندرگاہ پر منحصر ہے۔

حیفا بندرگاہ کی اقتصادی اور فوجی اہمیت کا اندازہ اس خطے میں موجود وسائل اور اسرائیلی معیشت پر ان کے اثرات سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس علاقے میں درج ذیل تنصیبات پائی جاتی ہیں:

1)۔ فوجی صنعتی کمپلکس جو اسرائیل کی رافائل کمپنی کیلئے اسلحہ تیار کرتا ہے اور اسرائیل کی فوجی مصنوعات کا 36 فیصد حصہ یہ کمپنی برآمد کرتی ہے جس کی سالانہ آمدنی 13 ارب ڈالر ہے۔ ان فوجی مصنوعات کا 48 فیصد حصہ ایشیا اور بحر ہند جاتا ہے جبکہ 35 فیصد حصہ یورپ بھیجا جاتا ہے۔

2)۔ غاصب صیہونی رژیم کے سب سے بڑے غذائی مواد کے ذخائر۔

3)۔ تیل کے سب سے بڑے ذخائر۔

3)۔ سب سے بڑا پاور ہاوس جو مقبوضہ فلسطین کے شمالی حصوں اور بستیوں کو بجلی فراہم کرتا ہے۔

4)۔ حیفا ایئرپورٹ۔

5)۔ الیکٹرانک اور ٹیکنالوجیکل مصنوعات کے ڈپو۔

6)۔ پوری مقبوضہ فلسطین سے متصل سڑکوں اور ریلوے کا نیٹ ورک۔

7)۔ 30 ملین ٹن اشیاء کی درآمد اور برآمد، 10 ہزار براہ راست روزگار اور 2 لاکھ 90 ہزار بالواسطہ روزگار۔

اسی بنیاد پر صیہونی ذرائع ابلاغ کا خیال ہے کہ آئندہ ممکنہ بھرپور جنگ میں اسرائیل کی پوری اقتصادی طاقت حزب اللہ لبنان کی زد میں ہو گی اور کوئی بھی جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی اسرائیل کی معیشت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اسی طرح مختلف صیہونی حلقے یہ رپورٹ دے رہے ہیں کہ اب ان عظیم پراجیکٹس کو چلانے کی کوئی گارنٹی نہیں پائی جاتی جو 7 اکتوبر 2023ء (طوفان الاقصی آپریشن) سے پہلے حیفا بندرگاہ کیلئے بنائے گئے تھے۔ وہ خاص طور پر ایسے وقت جب سب اسرائیل کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور کوئی سرمایہ کاری کرنے پر بھی تیار دکھائی نہیں دیتا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے