کیا حکومت کا آمدنی میں 40 فیصد اضافہ حقیقت پر مبنی ہے؟

blog.jpg

کیا حکومت کا آمدنی میں 40 فیصد اضافہ حقیقت پر مبنی ہے؟

پاکستانی حکومت نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کیلئے وفاقی بجٹ میں ٹیکس محصولات کا ہدف 13 ٹریلین روپے مقرر کیا ہے، جو رواں مالی سال کے بجٹ کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔

پاکستان کی موجودہ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ايم ايف) کی شرائط کو پورا کرنے کیلئے ٹیکس آمدنی میں چالیس فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا ہے مگر کیا یہ ممکن بھی ہے؟ وفاقی حکومت نے نجکاری عمل 30؍ارب روپے حاصل کرنے کا ہدف رکھا ہے جبکہ بنکوں سے قرضہ، ٹی بلز، پی آئی بی، سکوک 5142؍ارب روپے حاصل کئے جائیں گے لیکن وفاقی حکومت نے آمدنی بڑھانے سارا دارو مدار ٹیکس نیٹ میں اضافے کی اُمید قائم کیا ہے، وفاقی حکومت کو توقع ہے کہ آرمی چیف اپنا وعدہ پورا کرینگے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھا نے میں کردار ادا کریں گے تاکہ امن وامان قائم رہے اور معاشی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں اور کیش پر کرنے والے چھوٹے کارروباریوں کو ٹیکس نیٹ میں لا کر اِن کی آمدنی سے براہ راست ٹیکس وصول کرنے کا عمل آسان نہیں ہوگا، وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال نان فائلرز کے خلاف مزید سختیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے، فنانس بل کے مطابق بجٹ میں نان فائلرز کے بیرون ملک سفرپرپابندی لگانے کی تجویز ہے، نان فائلرز کو ٹکٹ جاری کرنے پر ٹریول ایجنسی پر 10 کروڑ روپے جرمانہ لگانےکی تجویز ہے، جبکہ دوسری مرتبہ ڈیفالٹ پر ٹریول ایجنسی پر 20 کروڑ روپے جرمانہ لگانے کی تجویز ہے، اس کے علاوہ تاجر دوست اسکیم میں رجسٹریشن نہ کرانے پر دکان کو سیل کرنے کی تجویز ہے جبکہ دکانداروں کو 6 ماہ قید یا جرمانے کی سزا کی تجویز ہے، یہ اقدامات آئی ایم ایف کو شاید مطمئن کرسکیں مگر یہ اقدامات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں، ملک میں غربت اور بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔

وفاقی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 46 لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں جس میں 30 سال سے اوپر کی عمر کے لوگوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے، عالمی معیار پر بیروزگاری کی سطح کو پرکھا جائے تو یہ تعدادمحتاط اندازوں کی بنیاد پر 3 کروڑ بنتی ہے، جس کا براہ راست اثر امن وامان پر پڑتا ہے ، پنجاب میں ایک سال کے اندر کرئم ریٹ میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

بجٹ میں ٹیکسز بڑھانے کیساتھ ساتھ ٹیکسز پر جھوٹ کو بھی ختم کیا گیا ہے، برآمد کنندہ کی آمدنی کو بھی ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کی تجویز ہے، پاکستان کی برآمدی پروڈکٹ پہلے کی عالمی مسابقت سے باہر نکلتی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں برآمدنی صنعتیں بند ہورہی ہیں اور ملک میں بیروزگاری کی سطح میں بڑھ رہے، ٹیکسز میں اضافے کا اثر مہنگائی کے طوفان سے لڑتے ہوئے عوام کی کمرتوڑ دے گا، اس وقت حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی میں اضافہ 23 فیصد ہے ، کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا کارروباری مرکز ہے یہاں 90 فیصد دکانداروں کا کہنا ہے کہ ضروریات زندگی یعنی کھانے پینے اور ادویات کے علاوہ خرید و فروخت میں 50 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے، دودھ فروشوں کا کہنا ہے کہ جو فیملی آج سے دو سال قبل ایک کیلو دودھ خریدتی تھی وہ آدھا کیلو دودھ خرید رہی ہے، حکومت اور اداروں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ پاکستان کی 50 فیصد آبادی نان شبینہ سے محروم ہے اوربرسر روزگار افراد این جی اوز کے تحت مفت یا کم قیمت ہوٹلوں کے باہر گھنٹوں لائن لگاکر کھانے کا انتظار کرتے ہیں، ایسے افراد کو ٹیکس نیٹ میں لاکر حکومت اپنی آمدنی بڑھانے کا خواب دیکھنا بند کردے، یہ وہ حقیقت ہے جس سے شہباز، مریم، بلاول اور زرداری واقف ہی نہیں ہیں تو آئی ایم ایف کیسے اس حقیقت کا ادراک کرسکتی ہے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر میں ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی کی چھوٹ واپس لیے جانے کی تجویز دی ، بجٹ میں بیرون ملک سے لگژری الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر ٹیکس اور ڈیوٹیز میں رعایت ختم کی جا رہی ہے، موٹر گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس انجن کی طاقت کے بجائے گاڑی کی قیمت کے مطابق وصول کرنے کی تجویز ہے، موبائل فونز کو 18 فیصد سٹینڈرڈ ریٹ پر ٹیکس کرنے کی تجویز ہے، سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) دو فیصد سے بڑھا کر تین فیصد کرنے کی تجویز ہے، نان فائلرز سے ایڈوانس ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح ایک سے بڑھا کر 2.25 فیصد کیے جانے کی تجویز ہے، کیپیٹل گین ٹیکس کی شرح بڑھا کر فائلز کے لئے 15 فیصد اور نان فائلرز کے لئے 45 فیصد کرنے کی تجویز ہے، نئے پلاٹوں، رہائشی اور کمرشل پراپرٹی پر پانچ فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) عائد کرنے کی سفارش ہے، اسٹیل اور کاغذ کی مصنوعات پر بیرون ملک سے درآمد پر ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز ہے، سگریٹ کے فلٹر میں استعمال ہونے والے ایسیٹیٹ ٹو 44000 ہزار روپے فی کلو ایف ای ڈی لگانے کی تجویز ہے، شیشے کی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی میں چھوٹ ختم کرنے کی تجویز ہے، ٹیکسٹائل اور چمڑے کی صنعت پر جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کی تجویز ہے، تانبے، کوئلے، کاغذ اور پلاسٹک وغیرہ کے سکریپ پر سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ کا اطلاق کی تجویز ہے لیکن ملک کے بدترین معاشی حالات کے باوجود زرعی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا گیا، جس نے پاکستان کے مالیاتی نظام کو برباد کرکے رکھا ہوا ہے۔

وفاقی بجٹ کے مطابق پاکستان کے سالانہ وفاقی اخراجات کا 52 فیصد سود کی ادائیگیوں جبکہ 11 فیصد عسکری اداروں کیلئے مختص کیا گیا،وفاقی حکومت کی خالص آمدنی نو ہزار ایک سو 19 ارب روپے متوقع ہے، وفاقی حکومت کے کُل اخراجات کا تخمینہ 18 ہزار آٹھ سو 77 ارب روپے ہے،جس میں نو ہزار سات سو 75 ارب روپے سود کی ادائیگی میں جائیں گے جبکہ دفاعی اخراجات میں اضافہ کرکے دو ہزار ایک سو 22 ارب روپےرکھا گیا ہے، قرضوں کی اُمید پر بنایا گیا بجٹ آئی ایم ایف کی خواہشات کو پورا کرسکتا ہے لیکن عملی اعتبار سے 40 فیصد آمدنی بڑھانے کےاہداف حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، لوگوں کی قوت خرید نہیں رہے گی تو دکاندار کیا کمائے گا اور کیا ٹیکس دے گا، وفاقی وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ آئی ایم ایف کیساتھ اسٹینڈ بائی معاہدے سے ملک میں معاشی استحکام آیا ہے اور مستقبل میں صورت حال مزید بہتر ہو جائے گی لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آئی ایم ایف کو زرعی ٹیکس لگانے اور سیاستدانوں ، سول اور ملٹری بیوروکریسی کے سرکاری اخراجات میں کمی پر جب آئی ایم ایف کو کوئی اعتراض نہیں تھا تو اس مد میں کٹوتیاں کیوں نہیں کی گئیں یہ بوجھ عوام پر کیوں برقرار رکھا گیا، آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت کی شاہ خرچیوں کے مواقعوں کو برقرار رکھ کر عوام سے ٹیکس لینے کا تقاضہ ہرگز درست نہیں مانا جاسکتا، پروٹوکال ،مفت بجلی، پیٹرول ، گلف کلبز اور جیم خانوں کیساتھ افسر شاہی کے خدمت گزاروں کی فراوانی، گاڑی ، ڈرئیوار، چائے پلانے والا بریف کیس اُٹھانے والا یہ سب عوام پر بوجھ ہیں، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں نے ایسے تمام اخراجات ختم کردیئے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ایسے تمام اخراجات جو نوآبادیاتی دور کی یادگار ہے ختم کردیں، برطانوی جج سائیکل پر عدالت جاتاہے تو پاکستان جیسے قرضدار ملک کا جج کیوں گاڑیوں کے لشکر کیساتھ سڑکوں پر رواں دواں ہوتا ہے، ہمارا وزیراعظم کیوں نہیں مختصر حفاظتی قافلےکیساتھ سفر نہیں کرسکتا، آرمی چیف کیلئے سڑکیں کیوں بند ہوتی ہیں،سرکاری خرچے کم کئے جائیں تو شاید عوام بھی ٹیکس دینے میں عار محسوس نہ ہو اور یہی ٹیکس لینے کا بنیادی فلسفہ بھی ہے، افسر شاہی کا بنیادی کام عوام کی خدمت ہوتاہے، عوام کو سہولیات فراہم کریں ، ضروریات زندگی تک رسائی کو آسان بنائیں تو ٹیکس دینے کو دل چاہے گا۔

شہباز بلاول حکومت کے پہلا بجٹ ٹیکسوں سے بھرپور ہےپاکستان کی تاریخ میں کسی بھی سالانہ بجٹ میں اس قدر ٹیکس نہیں لگائے گئےہیں جتنے موجودہ بجٹ میں لگائے گئے ہیں، بجٹ تجاویز میں تمام استثنیٰ ختم کر دیئے گئے ہیں جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو گا، بجٹ میں صرف نئے ٹیکسز اور استثنیٰ ہی ختم نہیں ہوئے بلکہ نان فائلرز کی سمز بند کرنے کے بعد اب بجلی اور گیس کے میڑ منقطع ہونے کے ساتھ ساتھ حج عمرہ اور بچوں کا پڑھائی کے لئے جانا بھی مشکل بنانے کی تجویز دی گئی ہے، تاجروں پر تاجر دوست اسکیم میں شامل نہ ہونے پر دکان سیل ہونے سے انارکی پیدا ہوگی، لوگ زندہ رہنے کیلئے سڑکوں پر آئیں گے امن وامان تباہ ہوگا اور مشکلات بڑھیں گی ، اس وقت پاکستان کو ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک کی عوام میں اعتماد پیدا کرسکے اور موجودہ معاشی طوفان کا مقابلہ کرسکیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سرکاری اخراجات میں کمی اور زراعت کی آمدنی پر ٹیکس لاگو کرکے پاکستان کے بجٹ خسارے کو کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے