رفح کراسنگ غیرت مند مصری جوانوں کا منتظر
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے کئی ہفتے کی دھمکیوں کے بعد آخرکار غزہ کی پٹی اور مصر کی مشترکہ سرحد پر واقع رفح کراسنگ پر حملہ کر کے وہاں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ امریکہ کے کچھ اہم ذرائع ابلاغ نے اس اسرائیلی اقدام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "اسرائیل نے عالمی سطح پر گوشہ نشینی اور شدید اندرونی اختلافات کے سائے تلے یہ فوجی اقدام انجام دیا ہے۔” صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دعوی کیا ہے کہ رفح کراسنگ پر فوجی قبضے کا اصل مقصد حماس کو اس علاقے سے دور کرنا ہے۔ دوسری طرف صیہونی فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف نے اعلان کیا ہے کہ رفح کراسنگ پر انجام پانے والا فوجی اقدام کوئی اسٹریٹجک کامیابی نہیں ہے اور اس سے ان اہداف کے حصول میں بھی کوئی مدد نہیں ملے گی جن کا پہلے سے اعلان کیا جا چکا ہے۔
یاد رہے صیہونی حکمرانوں نے غزہ پر فوجی جارحیت کے چند مقاصد بیان کئے تھے جن میں سے اہم ترین اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کا خاتمہ اور اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کروانا شامل تھا۔ صیہونی فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رفح کراسنگ پر فوجی قبضہ ہر گز حماس کے خاتمے کا باعث نہیں بنے گا۔ نیتن یاہو اور اس کی کابینہ میں شامل انتہاپسند وزیروں کی جانب سے شدید موقف سامنے آنے کے بعد امریکی حکومت نے بھی اسرائیل کو اسلحہ اور دو ہزار پاونڈ وزنی بم کی فراہمی روکنے سے متعلق بیانات دینا ختم کر دیے ہیں جبکہ رفح میں "محدود فوجی کاروائی” کی بھی منظوری دے دی ہے۔ اب تک امریکی اور یورپی حکمران صیہونی حکمرانوں کی جانب سے رفح پر ممکنہ فوجی حملے کی مخالفت کرتے آئے تھے اور ان سے غزہ میں جنگ بندی کرنے پر اصرار کر رہے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے اندر اختلافات کی خلیج مزید گہری ہو چکی ہے اور وہ شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے اندرونی اختلافات اب صرف سیاسی جماعتوں کی حد تک محدود نہیں رہے بلکہ صیہونی فوج بھی انتشار کا شکار ہے اور صیہونی معاشرہ بھی شدید بحرانی صورتحال سے دوچار ہو چکا ہے۔ حتی صیہونی فوجی قیادت اور سکیورٹی رہنما بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ رفح پر فوجی کاروائی کا حماس کے خاتمے سے کوئی تعلق نہیں اور بنجمن نیتن یاہو کا رفح پر حملے کا واحد مقصد رفح کراسنگ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینا ہے۔ دوسری طرف عالمی رائے عامہ میں غاصب صیہونی رژیم روز بروز تنہا ہوتی جا رہی ہے اور شدید گوشہ نشینی کا شکار ہے۔ اسی طرح رفح کراسنگ پر اسرائیل کے فوجی قبضے نے مصری حکام کو بھی شدید چیلنجز سے روبرو کر دیا ہے۔
مصری حکام نے اعلان کیا ہے کہ رفح کراسنگ پر اسرائیل کا فوجی قبضہ کمپ ڈیوڈ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے جس میں اس خطے کے غیر مسلح رہنے پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن مصری حکام نے اس کے ردعمل میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے مقدمے کی حمایت کرنے کے علاوہ کوئی اور موثر اقدام انجام نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ رفح کراسنگ پر فوجی قبضہ، جو غزہ میں ہر قسم کی انسانی امداد پر نظر رکھنے کی خاطر انجام پایا ہے، نہ صرف کمپ ڈیوڈ معاہدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس نے مصر کی حیثیت اور کردار پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں۔ اسی وجہ سے صیہونی حکمران، جو یہ چاہتے تھے کہ غزہ جانے والی تمام انسانی امداد رفح کراسنگ کے قریب واقع کرم ابوسالم کراسنگ سے جائے جو پہلے سے ہی ان کے کنٹرول میں ہے، اب یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ رفح کراسنگ کا کنٹرول ایک امریکی گروہ کے سپرد کر دیں گے۔
حماس نے اس اعلان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ رفح کراسنگ پر امریکیوں کی موجودگی بھی جارحیت تصور کی جائے گی اور اس کا مقابلہ کیا جائے گا۔ لیکن اس مسئلے میں مصرف کی طاقتور فوج اور غیرت مند فوجی جوانوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ کمپ ڈیوڈ معاہدے کی پاسداری کرنا اور کروانا مصر کی ذمہ داری ہے۔ مصری فوج نے ہمیشہ سے مذہبی اور قومی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے اور تاریخ کے دوران مصر کے فوجی جوانوں کی جانب سے بیرونی جارحیت کے خلاف جرات مندانہ اقدامات دیکھے گئے ہیں۔ ممکن ہے مصری حکمران حالات کے تناظر میں اور امریکہ اور مغربی ممالک سے دوستی کے پیش نظر زیادہ ردعمل ظاہر نہ کریں لیکن مصری فوج غیرت مند مسلمان جوانوں پر مشتمل ہے جسے کسی قیمت پر غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے واضح فوجی جارحیت کو برداشت نہیں کرنا چاہئے.