ابھرتی ہوئی جغرافیائی سیاست اور دہشت گردی کا منظرنامہ

358591-1195845219.jpg

عالمی جغرافیائی سیاست عسکریت پسندی کے خلاف عالمی جنگ سے منتقل ہوتے ہوئے عظیم طاقتوں کے درمیان مقابلے میں تبدیل ہو گئی ہے۔ عسکریت پسندی کے خلاف جنگ میں اب عالمی برادری کی توجہ اور وسائل چین پر قابو پانے اور روس کو روکنے کے طرف مبذول کر دیے گئے ہیں۔پھر بھی دہشت گردی نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس میں توسیع ہوئی ہے، جس سے اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آنے والے سالوں میں عسکریت پسندی کس طرح پروان چڑھے گی۔

عسکریت پسند گروہ جغرافیائی سیاسی خلا میں کام نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ سماجی، سیاسی اور نسلی شکایات، شناخت اور نظریاتی تنازعات اور معاشی پسماندگی کی پیداوار ہیں اور اسی طرح عالمی جغرافیائی سیاست عسکریت پسند گروہوں کی بھرتی، پروپیگنڈا اور فنڈ اکٹھا کرنے کے طریقے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔پچھلی چار دہائیوں کے دوران کچھ عالمی تنازعات اور جغرافیائی سیاست نے عسکریت پسندی کو متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر سرد جنگ کے آخری مرحلے میں امریکہ اور روس کی جغرافیائی سیاسی دشمنی عسکریت پسند گروہوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کی وجہ سے تھی۔

امریکہ نے علاقائی ممالک کی مدد سے افغان مجاہدین گروپ بنائے اور ان کی حمایت کی، جب کہ روس نے سابق ​​شمالی اتحاد کی حمایت کی۔افغان جنگ دہشت گردی کی مذہبی لہر کے لیے ایک واٹرشیڈ تھا۔ افغان ’جہاد‘ کے بطن سے عسکریت پسند گروہوں کی بہتات نکلی اور دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئی۔ افغان ’جہاد‘ نے دہشت گردی کو تین الگ الگ شکلیں دی۔پہلا، پراکسی وار اسی طرح دوسرا فرقہ وارانہ عسکریت پسندی جبکہ تیسری شکل عالمی جہادی تحریک کا ابھرنے کی صورت میں تھا۔

جیسے ہی سرد جنگ کا اختتام روس کے انخلا اور شکست کے ساتھ ہوا تو پاکستان نے جموں اور کشمیر کے علاقوں میں لشکر طیبہ اور حرکت المجاہدین جیسے پراکسی عسکریت پسند گروپوں کی مبینہ سرپرستی کی۔ اسی وقت ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب نے پاکستان کی شیعہ برادری پر ایک گہرا اثر ڈالا، جسے جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کی طرف سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ضیا حکومت نے شیعہ مخالف دیوبندی عسکریت پسند گروہ سپاہ صحابہ پاکستان کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ سپاہ صحابہ اور اسکی ذیلی شاخ "لشکر جھنگوی” نے 90 کی دہائی میں شیعہ نسل کشی کی بدترین مثال قائم کی عالمی عسکریت پسندوں کے منظرنامے پر افغان جنگ کا حتمی اثر 1988 میں اسامہ بن لادن کی قیادت میں القاعدہ اور 1996 میں افغان طالبان کا عروج کی صورت میں تھا، جب کہ بعد میں طالبان اور القاعدہ گٹھ جوڑ نے افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں۔

اور دنیا کے مختلف حصوں سے عسکریت پسندوں کو راغب کرنے کے لیے اپنے پیسوں اور عالمی رابطے کا استعمال کرتے ہوئے افغانستان کو عالمی عسکریت پسندی کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ ان وجوہات نے عسکریت پسندی کا ایک نظام تشکیل دیا، جس کا اختتام امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں پر ہوا۔9/11 کے حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت عالمی عسکریت پسندی کے ارتقا میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ 9/11 کے بعد کا عسکریت پسندی کا مرحلہ کم از کم تین پہلوؤں سے ’جہاد‘ کے ماضی کے مراحل سے مختلف تھا۔

سب سے پہلے اگرچہ خودکش عسکریت پسند حملوں کی شروعات 9/11 سے پہلے ہوگئی تھی لیکن بعد میں اس کے پیمانے اور تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے عسکریت پسندی کے خلاف عالمی جنگ میں اضافہ ہوا، خودکش عسکریت پسند حملوں میں اسی طرح اضافہ ہوا، خصوصاً افغانستان، پاکستان اور عراق جیسے ممالک میں۔دوسرا، عسکریت پسندی ماضی کے برعکس، 9/11 کے بعد کا اپنے ڈھانچے، مقاصد اور اہداف میں مختلف تھی۔ یعنی عالمی سنی خلافت کی تشکیل تھی جیسا کہ القاعدہ کا مقصد نظام کو اکھاڑ پھینکنا تھا۔ سابق ​​’جہادیوں‘ کے برعکس جنہوں نے انتخابی تشدد کے ذریعے اپنی شکایات اور وجوہات کی طرف توجہ مبذول کروائی اور سیاسی نظام میں اصلاحات کی کوششیں کرتے رہے تھے۔

تیسرا، 9/11 کے بعد کے ’جہادی‘ عسکریت پسندوں نے کمزور ریاستوں کے چیلنج اور دہشت گردی کے ساتھ ان کے مضبوط تعلق پر بھی زور دیا۔ ایشیا اور افریقہ کے مختلف حصوں میں کمزور ریاستوں میں ’جہادی گروپوں‘ کے خلاف انسداد دہشت گردی کے دباؤ سے بچنے، دوبارہ منظم کرنے اور اپنی پرتشدد کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں۔اسی طرح افغانستان سے نکالے جانے کے بعد القاعدہ اور طالبان پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہوئے اور عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے ابتدائی مرحلے کی ناکامیوں سے نمٹنے کے بعد اپنی پرتشدد مہمات کا دوبارہ آغاز کیا۔

شامی خانہ جنگی کا آغاز اور داعش کی فرقہ وارانہ عسکریت پسندی کا عروج مشرق وسطیٰ میں ایک شدید تنازعہ کے طور پر ابھرا۔ مزید برآں، داعش نے عراق اور شام کے درمیان ایک خود ساختہ پروٹو خلافت تشکیل دی، جو القاعدہ نے کبھی حاصل نہیں کی تھی۔شام کی خانہ جنگی اور داعش کے عروج کے مشترکہ طور پر عالمی عسکریت پسندی کے ارتقا پر تین اثرات مرتب ہوئے۔

سب سے پہلے، داعش کے عروج نے 53 مختلف ممالک سے تقریباً 30,000 غیرملکی جنگجوؤں کو متحرک کیا۔ داعش کے زیر کنٹرول علاقوں میں اکٹھے رہتے ہوئے بنائے گئے تعلق نے غیرملکی جنگجوؤں نے اپنے ممالک میں ہم خیال افراد کے ساتھ اپنے روابط کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں مزید افراد کے سفر میں سہولت فراہم کی اور ساتھ ہی ساتھ عسکریت پسندانہ حملوں کی ایک تازہ لہر کو بھی جنم دیا۔

دوسرا، اس مرحلے کے دوران ہونے والی پیش رفت کے سبب مغرب عسکریت پسند حملوں کی زد میں تھا۔ داعش نے ان حملوں کو بڑھانے کے لیے اپنے ملکی جنگجو کے نیٹ ورک کا فائدہ اٹھایا اور اس کے نتیجے میں القاعدہ کو عالمی عسکریت پسند تحریک کے رہنما کے طور پر کمزوری کا سامنا کرنا پڑا۔علاقائی کنٹرول کے ساتھ ساتھ مغرب میں حملوں اور پروپیگنڈے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال نے داعش کے ساتھ بیعت کے وعدوں میں اضافہ کیا۔

تیسرا، داعش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے مواصلات اور بھرتیوں میں انقلاب برپا کیا۔ اس عرصے کے دوران میدان جنگ سائبر دنیا تک پھیل گیا، جس نے ریاست کے زیر انتظام، اوپر سے نیچے انسداد عسکریت پسندی کے اقدامات پر سنگین پابندیاں عائد کیں اور پرتشدد انتہا پسندی کے خطرات کو کم کرنے میں سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کمپنیوں کے اہم کردار پر زور دیا۔

عظیم طاقتوں کا مقابلہ عالمی عسکریت پسندی پر گہرا اثرات ڈالے گا۔ عسکریت پسندوں کا موجودہ منظر مذہبی عسکریت پسندی اور انتہائی دائیں بازو کی دہشت گردی کے درمیان بکھرا ہوا ہے، جس سے یہ خطرہ متنوع، پھیلا ہوا اور اس کا پتہ لگانا مشکل ہے۔اسی طرح، توجہ ہائی پروفائل حملوں سے چھوٹے سطح کے حملوں کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔ آگے بڑھتے ہوئے، عسکریت پسندی محدود انداز میں ہی سہی، لیکن عالمی سطح پر موجود رہے گی۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا صروری نہیں۔

مصنف عبدالباسط خان  ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے