امریکا میں علمی آزادی کا ادارہ خطرے میں

03183006c4a6c96.jpg

کالم نگار :- ڈاکٹر توصیف احمد خان

The First Amendment provides that Congress make no law respecting an establishment of religion or prohibiting its free exercise. It protects freedom of speech, the press, assembly, and the right to petition the Government for a redress of grievances.

امریکا کے آئین میں کی گئی پہلی ترمیم آزادئ اظہار، احتجاج کی آزادی، آزادئ صحافت، علمی آزادی وغیرہ کو تحفظ فراہم کرتی ہے مگر امریکا کی حکومت یونیورسٹیوں میں غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے پر احتجاجی تحریک منظم کرنے والے نوجوانوں کو بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر انھیں پولیس کے حوالے کر کے امریکا کے دو سو سالہ پرانے آئین کی روح پامال کر رہی ہے۔اپریل کے مہینے میں امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں میں غزہ کے فلسطینی شہرؤں کی حمایت میں چلنے والی تحریک کو کچلنے کے لیے یونیورسٹی پولیس کے علاوہ ہر شہر کی پولیس بھی استعمال ہو رہی ہے اور اب تک مختلف یونیورسٹیوں کے نو سو سے زیادہ طلبہ گرفتار ہوچکے ہیں۔گرفتار ہونے والوں میں سیکڑوں اساتذہ بھی شامل ہیں جس میں کئی معروف پروفیسر بھی شامل ہیں۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کی 400 کے قریب یونیورسٹیوں میں طلبہ اسرائیل کی فوجی امداد بند کرنے، غزہ میں بمباری روکنے اور غزہ کے شہرؤں کے جینے کے حق کو تسلیم کرنے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں اور یونیورسٹیوں کے اہم مقامات پر دھرنے دیتے رہے ہیں۔

امریکا کی ان یونیورسٹیوں میں نؤ یارک کی کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک یونیورسٹی، مشی گن یونیورسٹی، ایم آئی ٹی بارکلے ٹیکساس یونیورسٹی، آسٹن بیل یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلیفورنیا، ایموری یونیورسٹی، جارج واشنگٹن یونیورسٹی، انڈیانا یونیورسٹی اور اریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی جیسے اہم ادارے شامل ہیں۔ برطانوی خبررساں ایجنسی رائٹرکی دنیا بھرکے اخبارات میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ اب امریکی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ ریاستی دباؤ پر احتجاجی طلبہ کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے جارہی ہے۔نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے صدر Nimat Minouche نے اعلان کیا ہے کہ احتجاجی طلبہ سے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاجی دھرنے کو ختم کرنے سے انکارکیا۔اب ان طلبہ کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کی جائے گی۔ یونیورسٹی کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ طلبہ کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کیے جاسکتے۔ انھوں نے اس نکتے پر خصوصی طور پر زور دیا کہ اسرائیل سے فوجی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا مگر یونیورسٹی غزہ میں تعلیم اور صحت کے منصوبے شروع کرنے اور ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔

کولمبیا یونیورسٹی نے احتجاجی طلبہ کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کردی ہے۔ احتجاجی طلبہ کو Online خطوط مل گئے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ان خطوط میں طلبہ کو متنبہ کیا ہے کہ جن طلبہ نے احتجاجی دھرنا ختم نہ کیا اور یونیورسٹی کے فراہم کردہ فارم پر دستخط نہ کیے تو پھر ان طلبہ کو معطل کر دیا جائے گا۔کولمبیا یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ جن طلبہ نے یونیورسٹی کی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کیا اور احتجاجی دھرنے سے علیحدہ ہوگئے ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی ہو رہی ہے۔ یہ طلبہ اگلے جون تک یا ان کی گریجویشن مکمل ہونے تک Disciplinary Probation پر رہیں گے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں طلبہ کے احتجاج کا منظر نامہ انگریزی کے اخبار کے رپورٹر نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ریلی میں شریک طلبہ کا جوش وخروش انتہا پر تھا۔ یہ طلبہ فلسطین کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور سیکڑوں طلبہ فتح کا نشان لہرا رہے تھے۔ واشنگٹن اور اطراف کے علاقوں کی 8 یونیورسٹیوںکے ہزاروں طلبہ نے واشنگٹن کے اہم علاقہ میں UYardکی شکل میں دھرنا دیا ہوا تھا۔ان یونیورسٹیوں کی انتظامیہ اپنے طالب علموں کو تادیبی کارروائؤں کے نوٹس بھجوا رہی ہے مگر اس دھرنا میں شریک طلبہ کے جوش وخروش میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ صرف جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے 30 اساتذہ نے غزہ کے عوام سے یکجہتی کے لیے طلبہ کے ساتھ GWU تک مارچ کیا۔ اس رپورٹرکی کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک مسیحی نوجوان ڈؤڈ سے ملاقات ہوئی۔ ڈؤڈ اب GWU کے المنائی میں شامل ہے۔

ڈیوڈ نے بتایا کہ امریکا کی انتظامیہ اس دھرنے کو ختم کرانے کے لیے تمام قسم کے حربے استعمال کررہی ہے مگر یہ احتجاج اس وقت ختم ہوسکتا ہے جب اسرائیل غزہ میں فلسطینؤں کا قتل عام بند کرے۔ اس اجتماع میں شریک سیکڑوں طلبہ نے اپنے چہروں پر فلسطین کا نشان لگایا ہوا تھا۔ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ صرف واشنگٹن اور نؤیارک میں ہی نہیں بلکہ دیگر شہروں میں بھی پولیس نے طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے آپریشن کیا۔ امریکا کی ایک اور ریاست ٹیکساس کی ریاستی انتظامیہ نے احتجاجی طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے سخت کارروائی کی ہے اورکئی طلبہ کو حراست میں لیا گیا ہے۔ امریکا کی یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبہ کی اکثریت کارل مارکس کے نظریات سے متاثر ہیں۔ ان کمؤنسٹوں کے علاوہ سوشلسٹ امن تحریک کے کارکن، آرٹسٹ اور این جی اوزکے کارکن اور ہم جنس پرست وغیرہ شامل ہیں۔

اب یہ احتجاج ؤرپ کی یونیورسٹیوں تک پھیل رہا ہے۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں یونیورسٹی آف سائنس کے طلبہ نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کردیں اور فلسطینی عوام کے حق میں زوردار نعرے لگائے۔ پیرس کی Po University میں اسرائیل نواز افراد نے فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہرے کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ یونیورسٹی میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ نے فلسطین کا نشان والا اسکارف سر پر باندھا ہوا تھا جو ایک خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔ ؤرپی ممالک میں جرمنی سب سے زیادہ اسرائیل کو اسلحہ اور دیگر امداد فراہم کر رہا ہے۔

جرمنی کے طلبہ نے برلن میں پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا تھا جس کو پولیس نے اکھاڑ پھینکا۔ امریکا اور ؤرپ میں یونیورسٹیوں میں ہونے والے ان مظاہروں نے 70ء کی دہائی میں ویت نام میں امریکی مداخلت کے خاتمے کے لیے ہونے والے مظاہروں کی یاد تازہ کردی۔ امریکا کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشوروں ڈاکٹر اقبال احمد، ایڈورڈ سعید اور نوم چومسکی وغیرہ نے70ء کی دہائی میں ویتنام میں امریکا کی بیہمانہ بمباری کے خلاف ایک احتجاجی مہم شروع کی تھی۔ یہ مہم امریکا اور ؤرپ کی یونیورسٹیوں میں پھیل گئی۔

ہر یونیورسٹی میں احتجاج او ر ویتنام کی جنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں نے امریکا کی رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اس وقت کے امریکا کے صدر نکسن کو پیرس میں شمالی ویتنام کی حکومت سے ہونے والے مذاکرات میں ویتنام سے امریکی فوجؤں کی واپسی کے فارمولہ کو قبول کرنا پڑا تھا۔ امریکا اور ؤرپ کی یونیورسٹیوں میں ویتنام کی جنگ کے خلاف احتجاجی تحریک کے بارے میں کئی فلمیں بنیں اور کئی کتابیں شایع ہوئیں۔اپنے وقت کے معروف دانشور Dougles Allenکی کتاب “Universities and the Vietnam War, A case study of a successful struggle” میں لکھا ہے کہ امریکا کی یونیورسٹیوں کے ہزاروں طالب علموں اور اساتذہ نے امریکا کی ویتنام میں فوجی مداخلت کے خلاف احتجاجی مہم میں حصہ لیا تھا۔

اس وقت کی امریکی حکومت نے اس تحریک کو کچلنے کے لیے تمام تر حربے استعمال کیے۔ پاکستان کے مارکسی دانشور حمزہ علوی اور پروفیسر ڈاکٹر اقبال احمد بھی اس تحریک میں شریک تھے۔ ان دونوں پروفیسروں کو ویتنام کی جنگ کے خلاف مزاحمتی تحریک کو منظم کرنے کی پاداش میں روزگار سے محروم ہونا پڑا۔ پروفیسر حمزہ علوی کا کینیڈا کی ایک بڑی یونیورسٹی میں تقرر ہوگیا تھا مگر عین وقت پر یہ معاہدہ منسوخ کیا گیا۔ڈاکٹر اقبال اور دو ساتھپوں کو سابق وزیر خارجہ ہینری کسنجر کی قیام گاہ کا گرم پانی کا نظام تباہ کرنے کی سازش کے الزام میں گرفتارکیا گیا اور ان افراد کے خلاف مقدمہ شروع ہوا۔ مگر شدید احتجاج کی بناء پر ڈاکٹر اقبال کو رہائی ملی تھی۔ ڈاکٹر ریاض احمد نے برطانیہ کی معروف یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔

ان کی کوششوں سے کراچی یونیورسٹی کے 100 سے زائد اساتذہ نے امریکا کی یونیورسٹیوں کے ان اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ یکجہتی کی دستاویز کی توثیق کی ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ علمی آزادی کی اس جدوجہد میں کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ ، امریکا کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ ساتھ کھڑے ہیں۔ اس دستاویز میں امریکا کی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کے طلبہ کے خلاف اقدامات کی شدید مذمت کی تھی۔دنیا بھر کے کمیونسٹ ، سوشلسٹ اور سیکولر سوچ رکھنے والے ادیب اور دانشور غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ امریکا کی علمی آزادی کا ادارہ کمزور ہوا تو امریکا کی جمہوریت کو نقصان ہوگا۔

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے