قائداعظم کا پیام اور وزیراعظم کا بیان

n01255531-b.jpg

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ درست ہے کہ قائد اعظم کا بیان کوئی قرآنی آیت تو نہیں جسے بدلا نہ جاسکے لیکن قرآنی آیات پر ہم کتنے عمل پیرا ہیں؟ قرآن کے مطابق کفار کو مسلمانوں پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ یہود و نصاری مسلمانوں کا دوست نہیں ہوسکتا کیا ہم اس پر عمل پیرا ہیں؟ رسول خدا کی حدیث کا مفہوم ہے کہ کوئی انسان یا مسلمان پر ظلم ہو اور وہ مدد کے لئے پکارے تو مسلمانوں کو اس کی مدد کرنی چاہیئے۔ کیا ہم بطور انسان و مسلمان مظلوم فلسطینیوں کی مدد کے لئے آمادہ ہیں؟ تین ماہ کے لئے سلیکٹ ہونے والے ہمارے وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے پانچویں مہینے میں امریکہ میں جاکر ایسا بیان دیا جس نے ہر محب وطن پاکستانی کو حیرت میں ڈال دیا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ 6 دسمبر 2023ء کے مطابق ویٹیکن اور فلسطین سمیت دنیامیں کل 195 ممالک ہیں۔ ان میں فقط دو ممالک نظریاتی بنیادوں پر دنیا کے نقشے میں وجود میں آیا ایک ملک خداداد پاکستان ہے دوسرا غاصب اسرائیل ہے۔ پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر ایک اسلامی سلطنت کی تشکیل کے لئے 14 اگست 1947ء کو وجود میں آیا جبکہ اسرائیل 16 اگست 1948ء کو جرمنی اور دیگر یورپی ممالک سے یہودیوں کو لاکر فلسطین کی سرزمین پر قابض ہوا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد جناح نے صیہونی ریاست اسرائیل کے غاصبانہ وجود سے پہلے اس ظالم ملک کی مخالفت کرتے رہے۔ 1937ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ادبی شہر لکھنؤ کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ عربوں سے جھوٹے وعدے کر کے ان سے فائدہ اٹھانے کے بعد برطانیہ نے اب بد نام زمانہ معاہدہ "اعلان بالفور” کے ذریعے اپنے آپ کو ان پر مسلط کردیا ہے اور یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن بنانے کی پالیسی کے بعد اب برطانیہ فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے، اگر اس معاہدے کو نافذ کردیا گیا تو عربوں کے اپنے وطن میں ان کی تمام تمناؤں اور آرزؤں کا خون ہوگا۔

اس بیان کی روشنی میں ہم قائد اعظم کی عقابی اور بابصیرت نگاہوں کی روشنی میں ادا کئے گئے بیان کو آج ہم فلسطین میں عملی طور پر دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح سے ہم بے گھر و بے سروسامان آئے ہیں ہمیں پناہ دو کے نعروں کے ساتھ آنے والے یہودی فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بےگھر، خیموں میں پناہ لینے پر مجبور کیا ہے۔ کس طرح اب فلسطینی مسلمانوں، مردوں ،جوانوں، بوڑھوں یہاں تک کہ عورتوں اور ننھے بچوں کا قتل عام کررہا ہے۔ قائد اعظم نے عالمی استعمار برطانیہ کے بے رحمانہ اور منفی کردار کے بارے میں فرمایا کہ جس دن سے برطانیہ نے سلطنت عثمانی کے بعد فلسطین پر قابض ہوا یہ ایک ایسی تاریخ بن گئی ہے جو تاریک تر ہوتی جارہی ہے۔

قائداعظم کی بابصیرت نگاہوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے والے یہودیوں کو اس کے انجام سے ڈراتے ہوئے دس نومبر 1938ء کو بمبئی میں فرمایا کہ بہت ظالمانہ بات تھی کہ یہودیوں کو ان کے زیر اثر، بیرونی طاقتوں کے اشارے پر کچرے کی طرح فلسطین میں پھینک دینے کی کوشش کی جائے اور اس طرح خود یہودیوں کے لئے بھی از حد قابل رحم صورت حال پیدا کی جائے جو عربوں کی سرین پر جائیں اور اپنے نام نہاد قومی وطن کی دلیل کے تحت وہاں قیام پزیر ہوائیں۔

قائداعظم کے اس قول کو آج ہم عملی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل اب غاصب یہودیوں کے لئے پرامن نہیں رہا، خود عبرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اب اسرائیل چھوڑ کر پھر سے یورپ جانے والوں کی تعداد طوفان الاقصی کے بعد لاکھوں میں پہنچ گئی ہیں۔ دس، پچاس اور سو مگر کو دوسرے ممالک سے جمع کرکے مستقبل کے سنہرے خواب اور نیشنلٹی دے کر اسرائیل میں بسانا اور اب لاکھوں یہودیوں کا اسرائیل سے ہجرت کرکے چلے جانا اس قابض سلطنت کے لئے خطرے کی بڑی گھنٹی ہے۔

جس دو ریاستی ظالمانہ فارمولے کو معاہدہ باالفور سے اوسلو امن معاہدہ پھر صدی کی ڈیل تک عالمی استعماروں نے کوششیں کی، اس باطل نظریہ کے خلاف بانی پاکستان نے 25 مئی 1945ء میں ڈاکٹر ڈالٹن کے نام یوں فرمایا اگر ان کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیز ہے، کس طرح ایسی دہشت ناک حکمت عملی کا اعلان کرسکتے ہیں جسے وہ اخلاقیات کے کسی اصول سیاست، انصاف اور عدل سے ہم آہنگ کسی نظریہ سے برطانیہ کے وقار کے مطابق کہہ سکیں، انتخاب میں یہودیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی ضمن میں یہ بہت خطرناک کھیل ہے۔ یہ عمل دنیائے اسلام کو مضطرب اور ان کے دلوں میں منافرت پیدا کردے گا اور تباہ کن نتائج پر مبنی ہوگا۔

دو ریاستی ظالمانہ حل کی بجائے فلسطین کے مسئلے کا منصفانہ حل کے لئے بابائے قوم نے 30 جولائی 1946ء کو یونائٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ مسئلہ فلسطین کو حل کے سلسلے میں پہلا قدم یہ ہوگا کہ فلسطین سے امریکی اثرورسوخ واپس ہوجائے نہ صرف یہودیوں کی فلسطین آمد کو ختم کردیا جائے بلکہ جو یہودی پہلے سے فلسطین میں آکر بسے ہیں انہیں بھی آسٹریلیا، کینیڈا یا کسی ایسے ملک میں بسایا جائے جہاں ان کی گنجائش ہو ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ ان کی قسمت اس سے بھی خراب ہوگی۔

میں قائد اعظم کی اس دور اندیشی کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اس وقت اسرائیل کے یہودی اسی مشکل، اضطراب اور خوف میں جی رہے ہیں جس طرف قائد اعظم نے اشارہ کیا تھا۔ اسی طرح دو ریاستی حل کے نظریئے کے خلاف ملت اسلامی کے عظیم قائد، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 8 دسمبر 1947ء کو اس وقت کے امریکی صدر ٹرومین کو خط میں یہ مطالبہ کیا کہ فلسطینی ریاست کو تقسیم نہ کیا جائے ورنہ تاریخ اقوام عالم کو فلسطینیوں کے ساتھ کئے گئے کھلے جرائم پر کبھی معاف نہیں کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے