خطے میں اماراتی کردار اور صدر امارات کا دورہ پاکستان

n01255747-b.jpg

بلوچستان کے علاقے ڈاڈر کے ایک بلوچ سردار ہمارے ساتھ پڑھتے تھے، ان سے بلوچستان کے حالات پر بات ہو رہی تھی تو کہنے لگے کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں ہمارے دوست عرب ممالک کا بڑا کردار ہے۔ ہم بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔؟ وہ سب تو ہمارے دوست ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا تھا کہ اگر گوادر کی بندرگاہ فعال ہو جائے تو دبئی بیٹھ جائے گا اور اماراتیوں کے پاس دبئی بندرگاہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس لیے وہ سب کچھ داو پر لگا کر بھی ہر ممکنہ خطرے کو روکیں گے اور اسے کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ یہ مفادات کی جنگ ہے اور اس میں پاکستان کا مفاد ان کے مفاد سے ٹکرا رہا ہے۔ اس واقعہ کو پیش نظر رکھیں گے تو صورتحال کو سمجھنے میں کافی آسانی ہوگی۔

عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان ایک روزہ دورے پر پاکستان پہنچے ہیں۔روایتی طور پر پاکستان کے امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات بظاہر بہت اچھے رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں اور اب تعلقات میں بہت سی پیچیدگیاں آگئی ہیں۔ عرب ممالک نے بالعموم اور امارات نے بالخصوص طاقت کے توازن کا تجزیہ انڈین فلمیں دیکھ کر کیا کہ پاکستان کے مقابلے میں انڈیا بہتر آپشن ہے، اس لیے ہم اس کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں اور یوں پچھلے کچھ عرصے میں اس ہاتھ ملانے کے اثرات ہر جگہ نظر آئے۔ امارات اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا چکا ہے اور وہ مسلسل ان تعلقات کو ہر اس ملک کے مقابل استعمال کرتا ہے، جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔ خیر مئی میں پاکستان انڈیا جنگ میں پاکستان نے جس طرح فتح حاصل کی، اس نے امارات کو حیران کر دیا ہے۔ ان کے تمام تجزیئے ہوا ہوگئے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو کاؤنٹر کرنے کیلئے طالبان کو استعمال کیا اور انھوں نے پاکستان میں حملے تیز کر دیئے۔ آج حالات اتنے خراب ہیں کہ ہمارے بارڈر بند ہیں اور افغانستان پاکستان پر باقاعدہ حملہ کرچکا ہے۔ جیش العدل کو بی ایل اے کے ساتھ متحد کروایا گیا۔ یوں جیش العدل اور اس سے منسلک دہشت گرد گروہ ہوں یا بی ایل اے اور اس سے منسلک دہشت گرد گروہ ہوں، سب باہم متحد ہوچکے ہیں۔ خطے میں ہونے والی دہشتگردی میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اس میں ان کا کردار ہے۔ عراق اور شام کی اماراتی پراکسیز سے بہت سے جنگجو پاکستان موو ہوئے ہیں۔ نئی دہشت گرد جماعتوں کو فنڈنگ کے مسائل بھی ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ پاکستان کے لیے اس وقت دو مسئلے بہت شدید ہیں، ایک فتنہ خوارج اور دوسرا فتنہ ہندوستان اور ان دونوں میں امارات کا کردار اچھا نہیں ہے۔

پاکستان نے اب اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور لیبیا کے ساتھ بڑی ڈیل کی گئی۔ اسی طرح سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ کیا گیا۔ سوڈان میں امارات اور پاکستان آمنے سامنے ہیں۔ پاکستان جس گروہ کو اسلحہ اور تربیت فراہم کرے گا، اس کے مقابل امارات کی پراکسی موجود ہے۔ سوڈان کیساتھ ڈیل کے خلاف بھی متحدہ عرب امارات دباؤ ڈال رہا تھا کہ ان کو اسلحہ فراہم نہ کیا جائے۔ جب پاکستان نے دیکھا ہے کہ اس کے مفادات کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے تو پاکستان نے اپنی طاقت کا خطے کے جاری تنازعات میں اظہار شروع کیا ہے۔ امارات کو لگتا ہے کہ وہ بڑا پلیئر بن گیا ہے، اسی لیے پچھلے کچھ عرصے سے اس نے ایران کے ساتھ بھی معاملات بہت خراب کر لیے ہیں۔ تین ایرانی جزائر پر دعویٰ کرکے حالات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

جی سی سی میٹنگز میں بار بار مسئلہ کو اٹھا کر کشیدگی پیدا کر رہا ہے۔ ویسے پہلی بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سعودی عرب نے اس کی حمایت نہیں کی، جو حیران کن تبدیلی ہے۔ اس کی وجہ شائد یہ بھی ہے کہ امارات ہر جگہ سعودی عرب کے مقابل گروہ کو سپورٹ کرنے کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔ ابھی یمن میں بھی اس نے سعودی حمایت والے گروہ کے مقابل اپنی پراکسی کو لا کھڑا کیا اور اب اماراتی پراکسی کا پلڑا بھاری ہو رہا ہے۔ اس سے سعودی مفادات کو بہت زک پہنچی ہے۔ ویسے سعودیوں سے امید نہیں، ورنہ وہ یمن کے اصل نمائندوں کے ساتھ بیٹھیں اور اتحاد کریں تو انہیں بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔ دو دن قبل اس وقت پاکستان کی پالیسی میں کافی جارحانہ انداز دیکھنے کو ملا، جب پاکستان نے اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات کی پراکسی کیخلاف کھل کر بات کی اور واضح کہا کہ اس کے پیچھے والی طاقت کو خبردار کیا جائے۔

یوں لگ رہا ہے، اب صورتحال کچھ یوں بن رہی ہے کہ پاکستان، ترکیہ، ایران اور سعودی عرب ملکر چل رہے ہیں اور امارات سوائے لیبیا کے ہر جگہ ان کے مقابل کھڑا ہے۔ ایسے میں متحدہ عرب امارات کے صدر محترم پاکستان تشریف لائے ہیں، یہاں کافی ٹف میٹنگز ان کی منتظر ہیں۔ اسی لیے استقبال کی تصاویر میں بھی ان کے چہرے پر گہری سنجیدگی ہے۔ پاکستان کی بدلی پالیسی سمجھ میں آجانی چاہیئے۔ افغانستان کے ذریعے پاکستان کے مفادات سے کھیلنے کا نتیجہ ہر جگہ آئے گا، ابھی تو آغاز ہوا ہے، لگ یہ رہا ہے کہ صدر امارات کو حالات کی سمت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ ویسے افغانستان میں طالبان پھنس چکے ہیں، اب کسی بھی طرح سے انہیں پاکستان سے راستے کھلوانے ہیں اور پناہ گزینوں کے لیے ریلیف لینا ہے۔ وہ کسی وقتی بندوبست پر اظہار آمادگی کرسکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ محترم صدر امارات اسی مشن پر ہوں۔ اب یہ پاکستان کے ارباب اختیار پر ہے کہ وہ مستقل مسئلہ حل کرتے ہیں یا عارضی حل پر ہی راضی ہو جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے