اسرائیلی فوج میں خودکشی کے بڑھتے رجحانات
اسرائیلی فوج اپنے فوجیوں کی حفاظت سے عاجز ہے، اپنے دشمنوں سے جنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ ایسے افسران اور سپاہیوں کی بڑی تعداد میں خودکشی کرنے کی وجہ سے جو گذشتہ دو برس سے غزہ کی پٹی میں کثیر مجرمانہ اقدامات کا ارتکاب کرتے آئے ہیں اور خودکشی ان میں ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اسی ہفتے منگل کے دن ایک اور اسرائیلی فوجی کی خودکشی کے ساتھ ہی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک خودکشی کرنے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 61 ہو گئی ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ریسرچ اینڈ انفارمیشن سینٹر کی طرف سے شائع کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 2024ء کے آغاز سے اس رپورٹ کی اشاعت (اس سال 27 نومبر) تک 279 اسرائیلی فوجی خودکشی کر چکے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں میں خودکشی کی لہر خاص طور پر 7 اکتوبر 2023ء کے بعد اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے اور جنگ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ مزید سنگین ہوتا گیا ہے۔ ابھی ریزرو فورس کے ایک سپاہی کی جانب سے اپنے اپارٹمنٹ میں خودکشی کے واقعے کو 10 دن بھی نہیں گزرے تھے کہ کل صیہونی اخبار ہارٹز نے ایک اور فوجی کے خودکشی کر لینے کی خبر دی ہے۔
تقریباً 10 روز قبل اسرائیلی ریزرو فورس کے دودوان (خصوصی یونٹ) میں 33 سالہ فوجی ناہورا رافیل بارزانی کی خودکشی نے مقبوضہ علاقوں میں شدید ہلچل مچا دی تھی۔ اسرائیلی فوج کا یہ بچوں کا قاتل فوجی غزہ میں ایک عرصے سے جرائم کا ارتکاب کر رہا تھا۔ اس کی زندگی میں اس کے خصوصی فوجی عہدے کے علاوہ ایک اور خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنے ایک اور دوست فوجی کے جنازے میں شرکت کرنا تھا جس نے دو ماہ قبل خودکشی کر لی تھی۔ بارزانی نے اپنے خودکشی کرنے والے دوست کے جنازے میں شرکت کے دوران اس کے غم میں تقریر کرتے ہوئے کہا: "آخرکار میں بھی تم سے یونا کے کفار کے زیر زمین قبرستان میں ملاقات کروں گا”۔ اب بارزانی اپنے دوست سے ملنے گیا ہے۔ بالکل اسی کی طرح وہ بھی اس دنیا سے چلا گیا، خودکشی کر کے اور اس وجود کو ختم کر کے جس نے ایک مشین کی طرح غزہ میں 70 ہزار سے زیادہ خواتین، بچوں اور عام شہریوں کے قتل عام میں حصہ لیا تھا۔ کچھ اسرائیلی ذرائع ابلاغ جیسے اخبار معاریو نے اس جنگی مجرم کے لیے ایک مرثیہ شائع کیا ہے۔ اگرچہ سرکاری ذرائع نے بارزانی کی موت کو دل کے دورے سے مربوط کرنے کی کوشش کی لیکن اخبار معاریو نے تصدیق کی کہ اس نے "غزہ میں فوجی کارروائیوں میں شرکت کے نتیجے میں شدید نفسیاتی پریشانی کی وجہ سے خودکشی کی”۔
صحافی اور بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار کم ایورسن، جو امریکہ میں سیاسی ٹاک شو کے میزبان کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، نے حال ہی میں اسرائیلی فوجیوں میں خودکشی کی اونچی شرح کے بارے میں چونکا دینے والے اعداد و شمار شائع کیے ہیں۔ ایورسن نے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی افواج کا باہمی موازنہ کرتے ہوئے دلچسپ اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ یہ دونوں ممالک استعماری اہداف کے حامل جانے جاتے ہیں۔ اس امریکی محقق کا کہنا ہے: "اعداد و شمار واقعی چونکا دینے والے ہیں۔ اسرائیلی فوج میں خودکشی کی شرح کا دیگر افواج سے موازنہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فرق اس قدر زیادہ ہے کہ اسے نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔” اس صحافی اور تجزیہ کار کے مطابق اسرائیلی فوج کو اس وقت ہر 1 لاکھ فوجیوں میں سے 150 کے قریب خودکشی کی شرح کا سامنا ہے جو امریکہ کے مقابلے میں چھ گنا اور برطانیہ کے مقابلے میں 13 سے 17 گنا زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار "اسرائیلی فوج کے ڈھانچے میں ایک سنگین بحران” کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے تقریباً ہر ماہ ایک اسرائیلی فوجی نے خودکشی کی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اسرائیلی فوج کا ذہنی امراض کا شعبہ اس وقت مختلف قسم کے نفسیاتی صدمے میں مبتلا 85 ہزار فوجیوں کا علاج کر رہا ہے۔ یہ سرکاری اعلان کہ غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک 61 اسرائیلی فوجی خودکشی کر چکے ہیں، کہانی کا صرف ایک رخ ہے۔ دوسری طرف، غیر سرکاری اعداد و شمار زیادہ تعداد بتاتے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں کے خودکشی کے اعداد و شمار پر سخت سنسرشپ کے باوجود عبرانی اخبار معاریو نے لکھا کہ کینسٹ کے ریسرچ اینڈ انفارمیشن سینٹر کی ایک دستاویز کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں 124 فوجیوں نے خودکشی کی ہے جن میں سے 61 فوجی ایسے ہیں جنہوں نے گذشتہ دو سالوں میں خودکشی کی ہے۔ اسرائیلی فوج میں ذہنی امراض کے مسائل کا سونامی ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں کینسٹ کی رکن اور صہیونی فوج میں ذہنی امراض کے شعبے میں سرگرم کارکن، تاتیانا مزارسکی کے مطابق "میں یہ کہتے ہوئے کانپ جاتی ہوں! ہمیں اسرائیلی فوج میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان اور لہر کا سامنا ہے! فوری طور پر خودکشی کی روک تھام کے لیے ایک قومی کونسل تشکیل دی جانی چاہیے۔”
