ایران کے ساتھ جنگ بندی کے اعلان کے لیے ٹرمپ شدید گھبراہٹ کا شکار تھے
ایران کے ساتھ جنگ بندی کے اعلان کے لیے ٹرمپ شدید گھبراہٹ کا شکار تھے
امریکی نظریہ ساز اور معروف تجزیہ کار جان مرشائمر نے ایک گفتگو میں کہا:
🔹 ایرانی، بالسٹک اور کروز میزائلوں اور ڈرونز کے استعمال میں—اسرائیلی دفاعی نظام میں نفوذ کے لیے—دن بہ دن زیادہ تجربہ کار اور ماہر ہوتے جا رہے تھے۔ اس کے ساتھ تمام شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسرائیل ۱۲ روزہ جنگ کے خاتمے کا شدید خواہاں تھا۔ وہ جنگ کو جاری نہیں رکھنا چاہتا تھا، کیونکہ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ایران کے پاس بالسٹک میزائلوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے اور وہ اسرائیل کو نقصان پہنچانا جاری رکھ سکتا ہے۔
🔹 انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ایرانیوں کا ۱۲ روزہ جنگ روکنے پر رضامند ہونا غلط فیصلہ تھا۔ ان کے نزدیک ایران آہستہ آہستہ ابتکارِ عمل اپنے ہاتھ میں لے چکا تھا۔ ایرانیوں کی جانب سے اسرائیل کو پہنچایا گیا نقصان، اسرائیل کے ایران کو پہنچائے گئے نقصان کے مقابلے میں کہیں زیادہ نمایاں تھا۔ اسی منطق کی بنیاد پر ان کا خیال تھا کہ ایران کو جنگ جاری رکھنی چاہیے تھی۔ لہٰذا جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل نے کوئی بڑی فتح حاصل کی، ان سے میں کہتا ہوں کہ یاد رکھیں ایران کے پاس ایک وسیع میزائل آرسنل موجود ہے؛ اس نے اس ۱۲ روزہ جنگ سے بہت سے اسباق سیکھے ہیں اور وہ دوبارہ بھی اسرائیل کو سخت نقصان پہنچا سکتا ہے۔
🔹 مزید یہ کہ ایک نہایت اہم نکتہ—جسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے—یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جنگ ختم کرنے کی شدید عجلت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ایران میں خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کی بندش پر گفتگو شروع ہو گئی تھی؛ ایسا اقدام امریکا کے لیے انتہائی تشویشناک ہوتا۔ لہٰذا اگر امریکا اور اسرائیل دوبارہ ایران کے ساتھ جنگ میں داخل ہوتے ہیں تو نہ صرف غالب امکان ہے کہ اسرائیل کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا، بلکہ خلیج فارس کی بندش کا سنگین خطرہ بھی موجود ہوگا—جس کے عالمی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
