بن سلمان اور ٹرمپ کی ناقابلِ حصول خواہشات

IMG_20251118_181340_136.jpg

بن سلمان اور ٹرمپ کی ناقابلِ حصول خواہشات

🔹 برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے آج، سعودی ولی عہد کے امریکہ کے دورے کے تناظر میں لکھا ہے کہ ریاض کا ابراہیم معاہدوں میں شمولیت اور واشنگٹن کے ساتھ ہمہ جہتی دفاعی معاہدہ – ان دونوں کے زیادہ سے زیادہ مطالبات – فی الحال پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔

🔹 ڈیلی ٹیلیگراف نے 2020 (اواخرِ تابستان ۱۳۹۹) میں ابراہیم معاہدوں پر دستخطوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ یہ اب بھی ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی بنیادی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ انہی معاہدوں کے تحت اسرائیل اور متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے درمیان تعلقات معمول پر آئے، اور اس کے ذریعے اسرائیل کو خطے میں مزید جگہ بنانے کا موقع ملا۔

🔹 ایسا لگ رہا تھا کہ سعودی عرب بھی اس معاہدے میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے اور بغیر فلسطینیوں کو کوئی بڑی رعایت دیے، اسرائیل اور اس کے مسلم ہمسایوں کے درمیان ایک نئے باب کا آغاز ہوسکتا تھا۔
لیکن غزہ میں اسرائیلی جنگ نے یہ تمام امیدیں ختم کر دیں۔

🔹 سروے کے مطابق 96 فیصد سعودی شہری اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے خلاف ہیں۔ یہاں تک کہ ایک مطلق العنان بادشاہت میں بھی عوام کے اتنے وسیع ردِّعمل کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

🔹 گزشتہ سال کے آخر میں محمد بن سلمان نے اعلان کیا تھا کہ جب تک فلسطینی ریاست کے قیام کا ایک قابلِ اعتماد راستہ موجود نہ ہو، اسرائیل کے ساتھ کوئی معاہدہ ممکن نہیں۔
تاہم، ریاض کی مخالفت کے باوجود، بظاہر ٹرمپ کا خیال ہے کہ وہ سعودیوں کا موقف تبدیل کر سکتا ہے۔

🔹 دوسری جانب، سعودی ولی عہد بھی ٹرمپ سے اپنی ساری مطلوبہ مراعات اس ملاقات میں حاصل نہیں کرسکتے۔ امریکی صدر نیٹو طرز کا دفاعی معاہدہ سعودی عرب کو نہیں دے سکتا، کیونکہ ایسا معاہدہ کانگریس کی منظوری کا محتاج ہے۔
دونوں جماعتوں (ریپبلکن اور ڈیموکریٹ) میں ایسے ملک کے لیے لازمی دفاعی ذمہ داریوں سے متعلق شدید تحفظات ہیں، جو اب بھی انسانی حقوق کے ریکارڈ اور علاقائی عدم استحکام کے باعث مشکل صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ اس لیے ایسا معاہدہ ممکن نظر نہیں آتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے