پاکستان افغانستان جنگ کا ایک اور زاویہ

طالبان کے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے المیے کے بعد شاید موجودہ زمانے کی ایک بڑی تلخ ستم ظریفی یہ ہے کہ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان سے ٹکراؤ شروع کر دیا اور اب حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ دونوں فریق ایک دوسرے سے براہ راست جنگ میں داخل ہوگئے ہیں۔ یہ مسئلہ اس لیے اہم ہے، کیونکہ پاکستان کو طالبان کا گاڈ فادر سمجھا جاتا ہے اور طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے تک اس گروپ کی حمایت کرنے والی اہم ریاست پاکستان تھی۔ جیسا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے بااثر سربراہ جنرل حمید گل نے ایک بار صاف صاف کہا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو جلال الدین حقانی اور ہیبت اللہ کے ساتھ میدان جنگ میں بھیجا ہے، تاکہ کفار کے خلاف جہاد کرسکے۔
کشیدگی میں اضافے اور پاکستان و طالبان کے درمیان براہ راست تصادم کی وجوہات کا تجزیہ کرنے کے لیے چند نکات کی طرف توجہ ضروری ہے۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ خطے کے تمام ممالک کی طرح پاکستان اور افغانستان بھی سرحدی تنازعات میں گھرے رہے ہیں اور جنوبی سرحدوں اور ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ نتیجتاً یہ عنصر کسی بھی لمحے دونوں ملکوں کے درمیان تنازع کی راکھ کے نیچے چھپی انگاری کو آگ میں بدل سکتا ہے اور اس سے قطع نظر کہ افغانستان میں کس قسم کی حکومت برسراقتدار ہے، یہ تنازعہ ایک مستقل تنازعہ ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ حقانی نیٹ ورک، ایک بااثر گروپ کے طور پر جو کہ آج افغانستان کے سکیورٹی تعلقات کو کنٹرول کرتا ہے، کے اسلام آباد سے قریبی تعلقات ہیں، لیکن جب طالبان دوسری بار اقتدار میں آئے تو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اسلام آباد کے لیے ایک عدم استحکام کا باعث بن گئی۔ ٹی ٹی پی نے گذشتہ تین برسوں میں سینکڑوں آپریشنز اور حملوں میں لاتعداد پاکستانی فوجیوں کو ہلاک یا زخمی کیا ہے۔ لہٰذا، تحریک طالبان پاکستان اب کابل کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک کارڈ بن گئی ہے۔ دوسری جانب حالیہ دنوں میں پاکستان اور طالبان کے درمیان براہ راست تصادم ہوا، جس کا دائرہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بھرپور جنگ کے امکانات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ اس وقت ہوا ہے، جبکہ دونوں فریق ایک دوسرے کی کمزوریوں سے آگاہ ہیں۔
مثال کے طور پر طالبان جانتے ہیں کہ پاکستان کے پاس ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے وہ پاکستان کا براہ راست مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، لیکن وہ دہشت گردانہ کارروائیوں اور گوریلا جنگ میں اسلام آباد کے لیے کافی پریشانیاں پیدا کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف، پاکستان کو طالبان پر فوجی برتری حاصل ہے، حالانکہ اس ملک نے حال ہی میں بھارت کے ساتھ جنگ ختم کی ہے اور اس کی سیاسی اور اقتصادی صورت حال کے پیش نظر وہ طالبان ملیشیا اور ان کے اتحادی گروپوں کے ساتھ مسلسل تنازعات کو اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔ مستقبل کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیے دو باتوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سب سے پہلے، طالبان، اپنی وجودی نوعیت کی وجہ سے، ہمیشہ اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ تصور کیے جاتے رہے ہیں اور بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق، انھیں ایران کی قومی سلامتی کے لیے بھی ترجیحی خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح گذشتہ تین برسوں کے دوران متعدد سرحدی اور سکیورٹی چیلنجز اور ہلمند میں پانی کے حقوق سے متعلق مسائل ان مسائل میں شامل ہیں، جنہوں نے افغانستان پر حکمرانی کرنے والے اس شدت پسند گروپ کے ساتھ ایران کو انگیج کر رکھا ہے۔ اس لیے اسلام آباد کا طالبان کے ساتھ محاذ آرائی اور طالبان کا کمزور ہونا نہ صرف افغانستان کے عوام بلکہ ایران کے لیے بھی ایک اہم اور تزویراتی فائدہ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف دونوں ممالک کے درمیان معاملے کو ایک اور زاوئیے کے ساتھ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان میں بگرام اڈہ واپس لینے کی بات کے بعد پاکستان نے اب ایک امریکی پراکسی کے طور پر طالبان پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ امریکہ اور اسلام آباد کی طرف سے مطلوبہ سکیورٹی اور جغرافیائی سیاسی مراعات فراہم کرے۔
شام میں بشار الاسد کے زوال کے ساتھ اس کی جنوبی سرحدوں پر یہ پیش گوئی کی جا سکتی تھی کہ امریکہ کی قومی سلامتی کی حکمت عملی کے مطابق پاکستان کو اپنی شمالی سرحدوں پر بھی ایسی ہی رعایتیں دی جائیں گی۔ اس کے نتیجے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور طالبان کے درمیان یہ کشمکش اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوگی اور مستقبل میں ایران کے مشرقی ہمسایہ ممالک کے درمیان پس پردہ معاہدوں کی صورت میں یا کھلے عام اعلانات کے باوجود سیاسی و فوجی کھینچا تانی جاری رہے گی۔