وفاقی حکومت کو نئی امریکی پالیسی پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیئے، رضا ربانی

سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے زور دیا ہے کہ وفاقی حکومت کو نئی امریکی پالیسی کے حوالے سے پارلیمنٹ کو فوراً اعتماد میں لینا چاہیئے، انہوں نے خاص طور پر نایاب معدنیات کی فروخت اور پسنی بندرگاہ کو واشنگٹن کو پیش کرنے کے مبینہ منصوبے کی میڈیا رپورٹس کا ذکر کیا۔ پریس ریلیز میں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے عوام یا پارلیمنٹ کو امریکا کے ساتھ تعلقات کے نئے خدوخال کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو خارجہ پالیسی کی تفصیلات اور اس کی سمت کے بارے میں جاننے کا حق حاصل ہے، تاریخ میں امریکا کبھی بھی ایک قابلِ اعتماد دوست ثابت نہیں ہوا جس پر انحصار کیا جا سکے۔ امریکی کمپنی یو ایس اسٹریٹیجک میٹلز کو قیمتی اور نایاب معدنیات کی فروخت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ اس معاہدے کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آئیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اس معاملے کے حقیقی فریق صوبے ہیں، جنہیں مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے ذریعے اعتماد میں لیا جانا چاہیئے تھا۔
رضا ربانی نے نشاندہی کی کہ وفاقی حکومت اس بات کا ادراک کرنے میں ناکام رہی ہے کہ آئینِ 1973ء کا آرٹیکل 172 نافذ العمل ہے، جس کے مطابق صوبوں کا معدنی وسائل میں 50 فیصد حصے کے مالک ہیں، آرٹیکل 172 کے مطابق کوئی بھی ایسی جائیداد جس کا کوئی جائز مالک نہ ہو، اگر کسی صوبے میں واقع ہے تو وہ اس صوبے کی حکومت کی ملکیت ہوگی، اور دیگر تمام صورتوں میں وفاقی حکومت کی، موجودہ وعدوں اور ذمہ داریوں کے تابع، کسی صوبے کے اندر یا اس کے متصل سمندری حدود میں معدنی تیل اور قدرتی گیس اس صوبے اور وفاقی حکومت کی مشترکہ اور مساوی ملکیت ہوگی، اس ضمن میں انہوں نے یاد دلایا کہ صوبوں نے وفاقی حکومت کے زیرِ اہتمام منرلز قانون کو مسترد کر دیا تھا، اس قانون پر بالخصوص بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مخالفت کی جاچکی ہے، اور اس نے وسائل کے کنٹرول پر بحث کو جنم دیا۔ رضا ربانی نے مزید کہا کہ بین الاقوامی میڈیا سے یہ جاننا تشویشناک ہے کہ پسنی بندرگاہ واشنگٹن کو دینے پر غور کیا جا رہا ہے، یہ علاقائی تعلقات پر بہت سنگین اثرات ڈالے گا۔