پاکستان ایک بڑے مسلم فوجی مڈل پاور کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے، مشاہد حسین سید

سینئر سیاستدان سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کیلئے بطور دفاع فراہم کرنیوالے اہم ملک کے طور پر سامنے آیا ہے، گریٹر اسرائیل کے بڑھتے خطرے اور امریکی دفاعی ضمانتوں پر اعتماد کے فقدان نے سعودی عرب کیساتھ پاکستان کے دفاعی معاہدے کی راہ ہموار کی ہے، معاہدے کا سہرا فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سر جاتا ہے، جو مسلم اصلاحات پسند اور اپنے ملک کو تیزی سے تبدیلی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے تھنک ٹینک پاکستان، چائنا انسٹیٹیوٹ کے زیرِاہتمام دفاعی معاہدے کی اہمیت اور مضمرات پر مشتمل ’’پاکستان اور سعودی عرب، مسلم دنیا کے تزویراتی دفاعی شراکت دار‘‘ کے عنوان سے پہلی جامع تحقیقی رپورٹ کا اجرا کر دیا۔
رپورٹ میں پاکستان، سعودی عرب تعلقات کے اہم سفارتی واقعات کی ایک فیکٹ شیٹ بھی شامل ہے، نیز اہم فوجی معاہدوں اور مشرق وسطی میں مسلم ممالک کو دفاع فراہم کرنے کے حوالے سے پاکستان کے ریکارڈ کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ ایک پریس بریفنگ کے دوران رپورٹ کا اجرا کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ گریٹر اسرائیل کے بڑھتے خطرے اور امریکی دفاعی ضمانتوں پر اعتماد کے فقدان نے سعودی عرب کیساتھ اس معاہدے کی راہ ہموار کی، معاہدہ تاریخی طور پر اسلئے بھی اہم ہے کہ 50 سال بعد پاکستان کے دوبارہ مشرق وسطی میں اہم ترین کردار کی راہ ہموار ہوئی ہے، اکتوبر 1973 کی عرب، اسرائیل جنگ کے دوران جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے، پاک فضائیہ کے پائلٹوں نے شام اور مصر کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل کیخلاف جنگی کارروائیوں میں حصہ لیا اور اسرائیلی طیارہ مار گرایا تھا۔
سینیٹر مشاہد حسین نے اس معاہدے کے وقت کو اہم قرار دینے کی تین وجوہات بیان کیں، پہلی وجہ اسرائیل کی قطر کیخلاف جارحیت، دوسری امریکا نے قطر کے دفاع کو اپنی فوجی طاقت اور ٹیکنالوجی کے ذریعے تحفظ دینے کا وعدہ کیا ہوا تھا، لیکن امریکا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا، اس تناظر میں اب خطے کے مسلم ممالک نے نئے دفاعی کے آپشنز تلاش کرنا شروع کر دیئے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاکستان کا اہم کردار اور وژن ایران کیخلاف اسرائیل کی گزشتہ جارحیت کے دوران بھی سامنے آیا جب پاکستان ایران کے شانہ بشانہ کھڑا رہا، تیسری بڑی وجہ پاکستان نے فوجی میدان میں اپنی طاقت ثابت کی جب اس نے مئی 2025 میں بھارتی جارحیت کا کامیابی سے نہ صرف دفاع کیا بلکہ ایک عددی طور پر بڑے اور زیادہ طاقتور دشمن کو شدید نقصان پہنچایا۔ سینیٹر مشاہد نے کہا دفاعی معاہدہ کے بعد اب آئی ایم ای سی غزہ کی نسل کشی کے ملبے اور عرب کی ریت کے نیچے دفن ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اب ایک بڑے مسلم فوجی مڈل پاور کے طور پر اہم سفارتی اور محافظ کا کردار ادا کر رہا ہے، دفاعی شراکت داری علاقائی دفاع کیلئے ایک نیا ماڈل فراہم کرتی ہے جو پاکستان کی فوجی طاقت اور سعودی عرب کی معاشی قوت کے بہترین امتزاج پر مبنی ہے تاکہ کسی جارحیت کیخلاف کامیاب حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے اہم چیلنج اب نظریات کی جنگ کے میدان میں ہوگا، جس کا سامنا پاکستان اور دوست ممالک جیسے سعودی عرب کو کرنا پڑیگا، لہذا مسلم تھنک ٹینکس کو اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا چاہیے اور حقائق پر مبنی تفصیلی تحقیقی رپورٹس تیار کرنی چاہئیں تاکہ من گھڑت معلومات اور جھوٹی خبروں کا موثر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔