پارلیمان میں بھی اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہ کرے اور عوام کا فیصلہ مانے، مولانا فضل الرحمان

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جمہوری قوتیں مزید کمزور ہوئی ہیں، پارلیمان میں بھی اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہ کرے اور عوام کا فیصلہ مانے۔ مولانا فضل الرحمان نے کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بزنس کمیونٹی کی گفتگو حوصلے کا سبب ہے، دنیاوی اور دینی علوم کو الگ الگ تقسیم نہیں کرنا چاہیے، 78 سال میں ہم علم کی تقسیم کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر شعبہ زندگی میں ماہرین پیدا کرنا ہوں گے تاکہ ملک کی ضرورت پوری کرسکیں، تشویش ہے کہ پاکستان معاشی طور پر مزید کمزور ہو رہا ہے، افغانستان کی معیشت بھی پاکستان سے بہتر ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انسانیت کا مزاج یکجا رہنے کا ہے لیکن اتحاد کے لیےکچھ اصول بھی ہونے چاہئیں۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ جب دل چاہتا ہے ملک کے آئین کو موم کی ناک بنا دیا جاتا ہے، مارشل لا کی حکومتیں آئین لپیٹ دیتی ہیں، ضیاالحق کے مارشل لا سے لڑتے لڑتے یہاں تک پہنچے ہیں اور جمہوری قوتیں مزید کمزور ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ سے کہتے ہیں کہ آپ قوم کا حصہ ہیں، بھارت نے حملہ کیا تو کہا کہ ہم پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں، دفاعی محاذ پر دفاعی قوت کو فاتح دیکھنا چاہتے ہیں، پارلیمان میں بھی اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہ کرے اور عوام کا فیصلہ مانے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی پر سمجھوتا نہیں ہوگا، اختلاف رائے ہو سکتا ہے، ایسی طرز سیاست اپنانا ہوگی جس سے ملک کی معیشت مضبوط ہو کیونکہ امن نہیں ہوگا تو ترقی نہیں ہوگی۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ریاست پوزیشن لیتی ہے جو اس کا حق ہے، مسئلہ کشمیر پر ریاست کا مؤقف ہے کہ مذاکرات ہوں گے، اگر کفر کی طرف سے صلح کی تجویز آئے تو خدا کا حکم ہے کہ صلح کرو۔ انہوں نے کہا کہ ایک اسلامی بلاک ہونا چاہیے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) علامتی بلاک ہے، پاکستان اور سعودی عرب میں مسلم امہ کی قیادت کی صلاحیت موجود ہے۔ سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ پاک، سعودی معاہدے کو خوش آمدید کہنا چاہیے، سعودی حکومت کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے وزیراعظم کو دعوت دی، مسلم دنیا میں جہاں خرابیاں ہیں انہیں ٹھیک کرنا ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عرب لیگ مضبوط ہے تو ایک حصہ مضبوط ہے، داخلی تنازعات حل کرنا ہوں گے، نفرت سے بالا تر قیادتیں آئیں گی تو اختلافات کم ہوں گے۔ امریکا معاشی لحاظ سے دنیا کی قیادت کر رہا تھا لیکن چین برابری کی سطح پر آگیا ہے۔