پانی کے تنازعے پر مصر، سودان اور ایتھوپیا کے درمیان جنگ کی چنگاریاں بھڑک اٹھیں

مصر-سودان-ایتھوپیا.png

ایتھوپیا نے افریقہ کے سب سے بڑے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم  کا باضابطہ افتتاح کر دیا ہے ۔ یہ ایک ایسا اقدام جس نے مصر اور سودان کے ساتھ اس کے تاریخی تنازعات کو تیز کر دیا ہے اور پانی کے بانٹنے کے معاملے پر خطے میں جنگ کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔

یہ ڈیم نیل دریا کی اصل شاخ "نیل ابی” پر تعمیر کیا گیا ہے، جو ایتھوپیا کے دریاچہ "تانا” سے نکلتی ہے اور پھر سودان اور مصر میں داخل ہوتی ہے۔ نیل دریا دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے اور مصر و سودان جیسے ممالک کے لیے زندگی کا سہارا ہے جہاں زراعت، پینے کا پانی اور معیشت اسی دریا پر منحصر ہے۔

ایتھوپیا، جو افریقہ کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے (تقریباً 12 کروڑ افراد)، کہتا ہے کہ یہ ڈیم اس کے لیے بجلی کی پیداوار اور معاشی ترقی کا ذریعہ ہوگا۔ وزیراعظم آبی احمد کا کہنا ہے کہ یہ ڈیم پورے خطے کے لیے ایک مشترکہ موقع ہے اور اس کے فوائد صرف ایتھوپیا تک محدود نہیں رہیں گے۔

لیکن مصر، جس کی 10 کروڑ 80 لاکھ آبادی کا تقریباً 90 فیصد پانی کا انحصار نیل دریا پر ہے، اس ڈیم کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ مصر کا خدشہ ہے کہ خشک سالی کے دوران ایتھوپیا کی جانب سے ڈیم کو بھرنے یا پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے سے اس کے حصے میں پانی کی کمی ہو جائے گی۔

سودان بھی اس معاملے میں پریشان ہے۔ اگرچہ وہ ڈیم سے سیلابوں کے کنٹرول اور سستی بجلی کے فوائد اٹھا سکتا ہے، لیکن وہ ایک قانونی معاہدے کا مطالبہ کر رہا ہے جس میں ڈیم کے پانی بھرنے اور استعمال کے اصول واضح ہوں۔

ایتھوپیا نے یہ منصوبہ اپنی حاکمیت کا حق قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ڈیم کا پانی بھرنا 2020 سے لے کر آہستہ آہستہ اور احتیاط سے کیا گیا ہے تاکہ مصر اور سودان کو نقصان نہ پہنچے۔ یہ منصوبہ مکمل طور پر ایتھوپیا کی عوامی اور مرکزی بینک کی مالی معاونت سے مکمل ہوا — کسی بیرونی مدد کے بغیر۔

فنی لحاظ سے، سد نہضت 1.8 کلومیٹر لمبا اور 145 میٹر اونچا ہے، جس کی گنجائش 74 ارب مکعب میٹر پانی ذخیرہ کرنے کی ہے۔ یہ ڈیم بجلی کی پیداوار بڑھانے، سیلابوں کو کنٹرول کرنے اور خشک سالی کے اثرات کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

تاہم، ابھی تک صرف نصف آبادی ہی اس ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کا فائدہ اٹھا رہی ہے باقی کو قومی گرڈ سے منسلک ہونے کا انتظار ہے۔

ڈیم کے افتتاح نے مصر اور سودان کے ساتھ ایتھوپیا کے تعلقات کو ایک نئے بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔ مصر کئی سالوں سے اس منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے اور اسے تاریخی پانی کے معاہدوں کی خلاف ورزی اور اپنے وجود کے لیے خطرہ قرار دے رہا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے بھی اس معاملے کو سنگین قرار دیا، لیکن کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا۔

اب، سد نہضت صرف ایک توانائی کا منصوبہ نہیں یہ ایتھوپیا کے لیے خطے میں اپنی طاقت اور اثر و رسوخ بڑھانے کا ذریعہ بھی ہے۔

مستقبل میں نیل دریا کے حوضے کے ممالک کے تعلقات اس بات پر منحصر ہوں گے کہ یہ ڈیم کس طرح چلایا جاتا ہے۔ پانی کے لیے تنازعات اور اس کے ساتھ جڑے حکمت عملی مفادات کا تنازعہ جاری رہے گا اور یہ خطہ ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے