امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے حقیقی چیلنج کیا ہے؟

بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے آغاز کے بعد پاک-چین تعلقات نے جغرافیائی اقتصادی فریم ورک میں وسعت اختیار کی۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی تحفظات اس پروجیکٹ کے معاشی پہلو پر حاوی ہوگئے جس سے دونوں فریقین کے درمیان تعلقات کشکمش کا شکار ہوئے۔ دوسری جانب پاک-امریکا تعلقات جو تاریخی اعتبار سے ہمیشہ سے ہی اسٹریٹجک اور سیکیورٹی پر مرکوز رہے ہیں، آج پاکستان اور امریکا کو اپنے تعلقات میں جغرافیائی معاشی ترجیحات کے ساتھ سیکیورٹی مفادات کو متوازی رکھنے میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ البتہ اصل امتحان تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ہے کہ وہ جغرافیائی اقتصادیات کو ترجیح بنانے کا انتخاب کرتے ہیں یا دونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ سیکیورٹی پر مبنی اسٹریٹجک تعلقات کو برقرار رکھتے ہیں۔ بہرحال دونوں صورتوں میں ہی انتخاب کے ساتھ لازمی طور پر کچھ شرائط بھی ہوں گی۔
بہ ظاہر چین کی سب سے بڑی تشویش سلامتی کا مسئلہ ہے۔ دوسری جانب امریکا پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مالی فوائد حاصل کرنے اور پاکستان کی سیاسی اہمیت خاص طور پر جنوبی و مغربی ایشیا کی سیاست میں تبدیلی کے تناطر میں، کو بڑھانے کے طریقے کے موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کا محل وقوع اس کا ایک بڑا اسٹریٹجک اثاثہ ہے جبکہ پاکستان یہ خواہش بھی رکھتا ہے کہ وہ فوجی طاقت، حکمت عملی اور سیاسی اثر و رسوخ کے اعتبار سے بھارت کے برابر نہیں تو کم از کم پائیداری کے اعتبار سے اس کے ساتھ رہے۔ اس سلسلے میں دو نقطہ نظر سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ چین اور امریکا دونوں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے سے پاکستان کو اپنی یہ خواہش پوری کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسرا نقطہ نظر اگرچہ کم مقبول ہے لیکن دلائل کے اعتبار سے زیادہ عملی ہے، اس کے مطابق سیاسی استحکام اور اندرونی اقتصادی ترقی کو یقینی بنائے بغیر، اس طرح کے عزائم میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔
تاہم دونوں ممالک کے ساتھ بیک وقت خصوصی تعلقات استوار کرنا مشکل ہوسکتا ہے بالخصوص جب دونوں ممالک کی پاکستان کے ساتھ مختلف توقعات وابستہ ہیں۔ اسلام آباد میں پاک-امریکا باہمی تعلقات کو ’دی سیکیورٹائز‘ کرنے یعنی دونوں ممالک کے تعلقات پر محض سیکیورٹی سے ہٹ کر ترتیب دینے کی بات کی جارہی ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پاکستان اور امریکا جنہوں نے 75 برسوں سے زائد عرصے سے سیکیورٹی کے شعبے میں تعاون کیا ہے، کیسے اچانک تعلقات کے اس تمثیل کو بدلیں گے بالخصوص جب تعاون کے لیے دیگر شعبے بھی محدود ہیں۔ درحقیقت پاکستان کا امریکا کے ساتھ 19 فیصد ٹیرف کا معاہدہ کرنا اچھا اقدام تھا جس سے اس کے لیے کم مسابقت کے ساتھ برآمدات کو وسعت دینے کا دروازہ کھل گیا ہے۔ تاہم گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان کے واشنگٹن کے ساتھ تجارتی تعلقات میں توازن نہیں۔ امریکا، پاکستان سے برآمدات سے زیادہ درآمدات کرتا ہے جس سے تقریباً 2 سے 3 ارب ڈالر کا سالانہ تجارتی خسارہ پیدا ہوتا ہے۔
کم ٹیرف کا مطلب ہے کہ پاکستان کو اپنی تجارتی حکمت عملیوں کو دوبارہ ترتیب دینا چاہیے۔ تاہم اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے کچھ قلیل مدتی اقدامات کیے گئے ہیں جیسے ٹیکسٹائل برآمدات کے لیے بہتر سودوں پر حالیہ مذاکرات اور درآمد کرنے کا فیصلہ جبکہ رپورٹس کے مطابق، ایک ارب ڈالر مالیت کا امریکی خام تیل کا منصوبہ نمایاں ہیں۔ اسی طرح کرپٹو تعاون اور توانائی کے وسائل کی تلاش کے بارے میں بات چیت دونوں ممالک کے درمیان مستقبل کے حوالے سے ہے جس میں سیاسی سرمایہ پیدا کرنے اور دو طرفہ اعتماد کو برقرار رکھنے کی کچھ صلاحیت ہوگی۔ اس کے باوجود کوئی بھی ملک سیکیورٹی تعاون کے وسیع فریم ورک سے خود کو الگ نہیں کر سکتا، چاہے انسداد دہشت گردی ہو یا علاقائی استحکام۔ اسلام آباد کے دیرینہ مطالبے پر بلوچستان لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کو ایک غیرملکی دہشتگرد تنظیم قرار دینے کا واشنگٹن کا فیصلہ، اس شعبے میں غیرمعمولی ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے۔
اگر واشنگٹن، سعودی عرب پر ابراہم معاہدے کی توثیق کے لیے دباؤ ڈالتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے بھی مشکل امتحان ہوسکتا ہے۔ یقینی طور پر اس طرح کے اقدام کے ساتھ شرائط ہوں گی جس میں سب سے نمایاں پاکستان کی ایران کے ساتھ پالیسی میں تبدیلی ہوگا۔ اس تناظر میں بلوچستان نہ صرف علاقائی جغرافیائی سیاست میں اپنے کردار کے لیے بلکہ اس کے نایاب زمینی معدنی ذخائر کی وجہ سے بھی اضافی اہمیت کا حامل ہے لیکن اگر امریکا واقعی پاکستان کے ساتھ سیکیورٹی سے ہٹ کر تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرکے بھلا کیسے ممکن ہے کہ جس کی بنیادی توجہ ہی فطری اعتبار سے سیکیورٹی معاملات پر مرکوز ہوتی ہے؟ یکے بعد دیگرے آنے والی پاکستان کی سویلین حکومتوں نے کئی بار کوشش کی ہے کہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات سیکیورٹی سے ہٹ کر دیگر مسائل کی بنیاد پر استوار کریں۔
اس اثنا میں آخری سنجیدہ کوشش 2008ء میں بے نظیر کے قتل کے بعد اقتدار میں آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں کی گئی تھی کہ جب پارٹی نے یہ سوچنے کی غلطی کی کہ وہ پاک-امریکا تعلقات کی نوعیت کو تبدیل کرسکتی ہے۔ یہ کوشش ناکام رہی۔ کیری لوگر بل جس کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ اس سے سیکیورٹی سے بالاتر باہمی تعاون بڑھانے کا موقع ملے گا، اس نے مسائل پیدا کیے جس سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور اندرون ملک سول ملٹری توازن بگڑ گیا۔ معاملات کو دیکھنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ 2025ء میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکا بھارت سے دور ہو رہا ہے بلکہ یہ کہ وہ جنوبی ایشیا میں کام کرنے کے لیے مختلف طریقے آزما رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو یہ چین پر کم انحصار کرنے، زیادہ شراکت داری قائم کرنے اور اپنی حکمت عملی میں ایک بہتر توازن پیدا کرنے کا نادر موقع ہے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان نے اکثر ایسے مواقع قلیل مدتی انتخاب، کمزور اداروں اور بدلتے ہوئے عالمی مفادات کی وجہ سے گنوائے ہیں۔
اصل چیلنج صرف معاہدوں پر دستخط کرنا نہیں ہے بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان پر درست طریقے سے عمل درآمد کیا جائے۔ اگر اسلام آباد اصلاحات کرسکتا ہے اور واشنگٹن اپنے وعدوں پر ثابت قدم رہے تو دونوں کے درمیان معاہدہ، طویل مدتی تعاون کے فریم ورک میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو خدشہ ہے کہ یہ دونوں ممالک کی شورش زدہ تاریخ کا محض ایک اور باب بن کر رہ جائے گا جس میں اعلان تو بہت کیے گئے لیکن اس کا اختتام مایوس کُن انداز میں ہوا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ، امریکا کے ساتھ نئی راہیں تلاش کرتے ہوئے چین کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو متوازن کرنے کو بڑا چیلنج نہیں سمجھتی۔ اسٹیبلشمنٹ کو چین کے بھارت کے قریب آنے پر بھی زیادہ فکر نہیں ہے کیونکہ ان کے تعلقات کبھی اسٹریٹجک اعتبار سے زیادہ مضبوط نہیں رہے ہیں جبکہ ان کا مستقبل بھی بے یقینی کا شکار ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ اپنے مضبوط دفاعی تعلقات کی وجہ سے پُراعتماد محسوس کرتا ہے اور یہ اعتماد تب بھی برقرار رہے گا کہ اگر چین اور بھارت امریکی صدر ٹرمپ کی حکمت عملیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی کوشش کریں۔
تاہم چینی سفارتکاری، امریکا کے مقابلے میں زیادہ خاموشی سے کام کرتی ہے اور اکثر یہ اشاروں کے ذریعے کام کرتی ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا اسلام آباد کا حالیہ دورہ سیکیورٹی، پاک-چین راہداری اور نئے اقدامات پر مرکوز تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ صرف ایک دن پہلے ہی وہ سہ فریقی سلامتی میٹنگ کے لیے کابل میں تھے۔ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ جہاں چین اور افغانستان نے بی آر آئی میں شمولیت پر بات چیت کی ہے وہیں سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔ دوسری جانب طالبان پاکستان کو شامل کیے بغیر چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ چین نے افغانستان کے وسطی ایشیا سے براہ راست روابط استوار کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ وہ پیغام ہے کہ جسے اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہنماؤں کو محتاط انداز میں سمجھنا چاہیئے۔