پاکستان و بنگلہ دیش تعلقات: قربتیں بڑھ رہی ہیں

download.png

دودِن قبل(23اگست 2025ء کو) ہمارے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ، جناب اسحاق ڈار، بنگلہ دیش کے دارالحکومت،ڈھاکا، میں تھے ۔ جس روز ڈار صاحب ڈھاکا پہنچے، اُسی روز پاکستان کے وفاقی وزیر تجارت، جناب جام کمال ، بھی بنگلہ دیش میں تھے۔ اسحاق ڈار کا یہ دَورہ تاریخی کہنا چاہیے

کہ پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ پورے 13برسوں کے طویل وقفے کے بعد بنگلہ دیش کے سرکاری دَورے پر پہنچا ہے۔

حنا ربانی کھر پاکستان کی آخری وزیر خارجہ تھیں جو آخری بار ڈھاکا گئی تھیں تاکہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم، شیخ حسینہ واجد، کو پاکستان میں ہونے والی ’’سارک‘‘ کانفرنس میں باقاعدہ مدعو کیا جا سکے ۔

حسینہ صاحبہ پھر بھی پاکستان نہ آئیں۔ موصوفہ بھارتی دباؤ اور اثرورسوخ کے سائے میں جی رہی تھیں ۔ جب تک شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہیں (15سال ) پاک ، بنگلہ دیش تعلقات میں کشیدگی اور تلخی ہی رہی ۔ بھارت بھی یہی چاہتا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں تعلقات کبھی بہتر نہ ہوں۔ حسینہ واجد نے بھی ہمیشہ بھارتی خواہشات کی تکمیل کی ۔

انسانوں اور ممالک کی اپنی چالیں ہوتی ہیں اور دُنیا بارے خالقِ کائنات کی اپنی ڈیزائننگ ہے ۔بنگلہ دیشی حکومت، جس پر حسینہ واجد کی آہنی گرفت کہی جاتی تھی، ایک سال قبل، اِسی مہینے میں، یہ گرفت یوں اچانک ٹوٹی کہ حسینہ واجد کی زیادتیوں اور ظلم سے تنگ آ کر بنگلہ دیشی طلبا نے بغاوت کر دی ۔

اِس بغاوت کو فرو کرنے کے لیے حسینہ واجد حکومت نے احتجاجی طلبا و عوام کو گولیوں سے بھون کر رکھ دیا۔ پھر آسمان نے یہ منظر بھی دیکھا کہ حسینہ واجد کی بظاہر مضبوط حکومت بنگلہ دیشی احتجاجی طلبا تحریک کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی ۔

اپنی حکومت ختم ہوتے ہی موصوفہ ملک سے فرار ہو کر بھارت میں پناہ گزیں ہو گئیں ۔ بنگلہ دیش میں تب سے اب تک ایک عبوری حکومت بروئے کار ہے جس کی متفقہ سربراہی معروفِ عالم بنگلہ دیشی اکانومسٹ نوبل انعام یافتہ، پروفیسر محمد یونس، کے پاس ہے۔ محمد یونس کی حکومت کی جانب سے بھارتی حکومت کو بار بار کہا گیا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے حوالے کیا جائے (تاکہ اُن کے متعدد اور متنوع جرائم کی بنیاد پر اُن پر مقدمات چلائے جا سکیں) مگر بھارت ابھی تک حوالگی کے

اِن مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔ شیخ حسینہ کی غیر حاضری میں بنگلہ دیشی اعلیٰ عدالتیں انھیں کئی جرائم میں سزائیں بھی سنا چکی ہیں ۔

بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے اور نئی عبوری حکومت کے قیام کے بعد ، پچھلے ایک سال کے دوران، پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں کئی نہائت خوشگوار اور مثبت تعلقات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر (1) اِس عرصے میں بنگلہ دیش اور پاکستان میں تجارتی و سمندری تعلقات یوں بحال ہُوئے ہیں کہ پاکستان کا ایک بحری جہاز50ہزار ٹن چاول کی کھیپ لے کر بنگلہ دیش میں لنگر انداز ہو چکا ہے (2) بنگلہ دیش آرمی کی ہائی کمان پاکستان کا دَورہ بھی کر چکی ہے اور ہمارے آرمی چیف( جنرل عاصم منیر) سے بھی ملاقات کر چکی ہے ۔

یہ وفد وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، سے بھی ملا ہے (3) پاکستان کے کئی گلوکار اور قوال ڈھاکا میں کامیاب کنسرٹ کر چکے ہیں (4) بیرونِ ملک پروفیسر محمد یونس اور وزیر اعظم شہباز شریف کی ایک تفصیلی اور خوشگوار ملاقات بھی ہو چکی ہے (5) پاک ، بنگلہ دیش تعلقات میں مزید بہتری لانے کے لیے یونس حکومت نے، 2اپریل2025ء کو، بنگلہ دیش میں تعمیر کردہ ایک میورال ( Libration War Memorial Mancha) مسمار کر دی ہے۔ یہ میورال بنگلہ دیش کی آزادی کے پس منظر میں بنائی گئی تھی اور اِس میں پاکستان کی دل آزاری کے کئی پہلو نکلتے تھے۔ ایسے نئے حالات میں اسحاق ڈار صاحب بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔

اب جب کہ ہمارے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ، جناب اسحاق ڈار، نے23اگست کو ڈھاکا کا دو روزہ سرکاری دَورہ کیا ہے،بھارت میں پریشانی اور تشویش کی لہریں اُٹھ رہی ہیں ۔ مثلاً: بھارتی جریدے Defence Security Asiaنے بھارتی خود ساختہ پریشانی کی عکاس ایک خبر شایع کی ہے ۔ مذکورہ اخبار کے مطابق، بنگلہ دیش، پاکستان سے35کی تعداد میں جدید ترین لڑاکا طیارے، ایف17، خریدنے جارہا ہے۔

یہ طیارے ’’پاکستان ائروناٹیکل کمپلیکس‘‘ (PAC) اور چین کے CAIG نے بنائے ہیں ۔ اخبار مذکور کے مطابق: اگر بنگلہ دیش یہ جنگی طیارے پاکستان سے خریدنے میں کامیاب ہو جاتا ہے

تو اِس اقدام سے بنگلہ دیش سے متصل بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں ( جنھیں Seven Sister Statesبھی کہا جاتا ہے ) غیر محفوظ ہو جائیںگی ۔ اور یہ بھی کہ اِس سودے سے بھارت کی سلامتی اور سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

بھارتی تجزیہ نگار (سوہاسنی حیدر) کے مطابق، بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان سے طیاروں کی اِس مبینہ خریداری سے بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان مزید کشیدگی پیدا ہوگی ، جو پہلے ہی بنگلہ دیش میں (سابق وزیر اعظم) شیخ حسینہ واجدکی حکومت کے خاتمے اور پھر حسینہ واجد کے بھارت میں پناہ لینے سے تناؤ کا شکار ہیں ۔ ایک اور بھارتی عسکری تجزیہ نگار کے مطابق: پاکستان یہ Thunder F 17 جنگی طیارے بنگلہ دیش کو فروخت کر ہی نہیں سکتا تھا، اگر چین نے پاکستان کو اشارہ نہ کیا ہوتا۔بھارتی میڈیا کے بقول، مبینہ طور پر طیاروں کی مبینہ فروخت کی خبر عین اُس وقت سامنے آئی جب بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر، نوبل انعام یافتہ ماہرِ اقتصادیات پروفیسر محمد یونس، بیجنگ کا دَورہ کررہے تھے ۔

اسحاق ڈار صاحب ایسے تاریخی لمحات میں ڈھاکا پہنچے ہیں جب(1) ایک برس قبل بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی جابرانہ حکومت ختم ہو گئی تھی(2) جب پاکستان اور بنگلہ دیش میں قریبی سفارتی ، تجارتی اور برادرانہ تعلقات میںتیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے (3) جب بنگلہ دیش اور ترکیہ کے باہمی تعلقات میں بھی قابلِ رشک بڑھوتری آئی ہے (4) جب بنگلہ دیش نے ترکیہ سے جدید ترین جنگی ڈرونز (Bayraktar TB2) خریدے ہیں ۔

اِن ڈرونز بارے بھارت اسقدر خوفزدہ ہُوا ہے کہ اُس نے باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ جونہی یہ ڈرونز بھارتی سرحد پر منڈلاتے نظر آئے ، بھارت انھیں مار گرائے گا (5)جب بنگلہ دیش اور چین تیزی کے ساتھ قریب آئے ہیں ۔ خاص طور پر بنگلہ دیش اور چین میں بڑھتے تعلقات سے بھارت کی بھنویں تن گئی ہیں ۔بھارت اور چین میں پہلے ہی سے کشیدگی چلی آ رہی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کو چین کے قریب لانے میں پاکستان بنیادی کردار ادا کررہا ہے ۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے عبوری حکمران یا چیف ایڈوائزر، پروفیسر محمد یونس،نے مارچ2025ء کے آخری ہفتے چین کا چار روزہ سرکاری دَورہ کیا تو یہ بھی بھارت کے اعصاب پر بُری طرح سوار ہُوا ۔ اِس دَورے میں چینی صدر نے جس طرح پروفیسر محمدیونس صاحب کا استقبال کیا، حیران کن تھا ۔ اِس سلسلے میں اگر ہم معروف بنگلہ دیشی اخبار ( ڈھاکا ٹربیون) میں شایع ہونے والے مونیکا بیگ کے مفصل آرٹیکل کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پروفیسر یونس صاحب کا یہ دَورئہ چین نہائت کامیاب رہا ۔

یوں کہ (2) چینی حکومت نے بیجنگ یونیورسٹی کی جانب سے پروفیسر محمد یونس کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی (2) بنگلہ دیش اور چین کے درمیان9اہم ترین معاہدوں پر دستخط کیے گئے (3) معاہدے کے مطابق چین اب بنگلہ دیش کی اہم ترین مونگلہ بندرگاہ بھی تعمیر کرے گا اور بنگلہ دیش میں ایک نیا انڈسٹریل زون بھی بنائے گا (4) بھارت نے دریائے’’ ٹیسٹا‘‘ کے پانیوں کے حوالے سے بنگلہ دیش کو بے حد پریشان کررکھا ہے اور اب چین یہ تنازعہ حل کروائے گا (5) بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورسز(BSF) پچھلے برسوں میں جس طرح بنگلہ دیش کے کئی شہریوں کو بنگلہ دیش و بھارت سرحد پر قتل کرتا آرہی ہے، اب یہ ظلم بھی بند ہو جائے گا کہ اب بنگلہ دیش اور چین میں اسٹرٹیجک معاہدہ بھی ہو گیا ہے ۔ یہ ہیں وہ حالات جن میں ہمارے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ ، اسحاق ڈار صاحب ، ڈھاکا پہنچے ہیں ۔ اُن کا ڈھاکا میں شاندار استقبال ہُوا ہے ۔ وہ اعلیٰ بنگلہ دیشی قیادت سے ملے ہیں ۔اُن کے دَورے کے مثبت ثمرات ہم سب خود جَلد دیکھیں گے ۔ انشاء اللہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے