غزہ باضابطہ قحط زدہ قرار

قحط-در-غزہ.jpg

اقوامِ متحدہ نے گزشتہ روز باضابطہ طور پر فلسطین کے علاقے غزہ کو قحط زدہ قرار دے دیا ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ میں اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد واقعہ بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے گلوبل ہنگر مانیٹر انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن (آئی پی ایس) نے باضابطہ طور پر اس کا اعلان کیا ہے۔

انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن کے مطابق5 لاکھ سے زائد فلسطینی شدید قسم کے قحط کی حالت کا سامنا کر رہے ہیں، جس میں بھوک، افلاس اور موت شامل ہیں۔یہی درجہ بندی ستمبر کے آخر تک وسطی غزہ کے دیر البلاح اور جنوبی غزہ کے خان یونس تک بڑھنے کا امکان ہے۔ 10 لاکھ 70 ہزار افراد (غزہ کی کل آبادی کا 54 فیصد) فیز 4 یعنی ’ایمرجنسی‘ ، 3 لاکھ 96 ہزار افراد (20 فیصد) فیز 3 یعنی ’بحران‘ کی حالت میں ہیں۔

اسرائیل نے ڈھٹائی کا روایتی مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ شہر قحط زدہ ہونے کی رپورٹ مسترد کر دی۔ وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ نتائج حماس کا جھوٹ ہے، جنھیں مفاد پرست تنظیموں کے ذریعے پھیلایا گیا ہے۔غزہ میں کوئی قحط نہیں۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ گزشتہ روز غزہ میں قحط، شدید غذائی قلت کے باعث مزید دو فلسطینی دم توڑ گئے۔ 112 بچوں سمیت 273 اموات ہو چکی ہیں۔ ادھر اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے حملے بھی دن بھر جاری رہے۔

ان حملوں میں71 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں امداد کے متلاشی 24 فلسطینی بھی شامل ہیں۔ اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو غزہ پر فوج کشی کی تھی۔ اس دن سے لے کر اب تک اسرائیلی حملوں میں62 ہزار 263 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزیرِ دفاع یسرائیل کاٹز نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے ہتھیار نہیں ڈالے، تمام باقی یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا اور اسرائیل کی شرائط پر جنگ ختم نہ کی تو غزہ سٹی کو تباہ کر دیا جائے گا۔ اپنے سوشل میڈیا بیان میں مزید کہا کہ جلد ہی جہنم کے دروازے غزہ میں حماس کے قاتلوں اور درندوں کے سروں پر کھل جائیں گے۔

کسی علاقے میں قحط پڑنے کا فیصلہ انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن (آئی پی ایس) نامی اقوام متحدہ کے پیمانے کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ ادھر اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ غزہ میں قحط کی کوئی صورت حال نہیں، جنگ کے آغاز سے اب تک ایک لاکھ سے زائد امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے امدادی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے جنیوا میں میڈیا کو بتایا کہ غزہ میں قحط روکا جا سکتا تھا لیکن اسرائیل کی منظم رکاوٹوں نے امدادی سامان کی ترسیل کو ناممکن بنا دیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ وہ قحط ہے جسے ہم رو ک سکتے تھے، اگر ہمیں اجازت دی جاتی لیکن خوراک سرحدوں پر رکی ہوئی ہے کیونکہ اسرائیل مسلسل رکاوٹ ڈال رہا ہے۔

یہ اکیسویں صدی کا قحط عالمی برادری کے لیے اجتماعی شرمندگی کا لمحہ ہے کیونکہ دنیا نے اسے وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہے۔ ٹام فلیچر نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ذریعے غزہ بھیجے جانے والے امدادی سامان کو بلارکاوٹ غزہ میں داخل ہونے دے اور انتقامی اقدامات ختم کرے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے دوٹوک الفاظ میں الزام عائد کیا کہ شمالی غزہ میں قحط کا پھیلنا اسرائیلی حکومت کے اقدامات کا براہ راست نتیجہ ہے اور بھوک سے ہونے والی اموات جنگی جرم کے مترادف ہیں۔ بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا جنگی جرم ہے اور اس کے باعث اموات دانستہ قتل کے زمرے میں بھی آ سکتی ہیں۔

فلسطین خصوصاً غزہ میں اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے، یہ ڈھکا چھپا نہیں ہے بلکہ اقوام عالم کی آنکھوں کے سامنے ظلم کی داستان رقم کی جا رہی ہے، طاقتور اقوام کو حقائق کا بخوبی علم ہے لیکن عالمی سیاست کی مصلحتیں انھیں عملی اقدامات کرنے سے روک رہی ہیں۔

غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو جبراً ان کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے قتل وغارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم اور باضابطہ منصوبے کا حصہ ہے، اس گرینڈ منصوبے کا مقصد غزہ کے شہریوں کو نکال کر زمین پر قبضہ کرنا ہے۔

اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اس جنگ کو اس وقت تک جاری رکھنا چاہتے ہیں جب تک غزہ کو فلسطینیوں سے پاک نہیں کر دیا جاتا۔ امریکہ  کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ فلسطینیوں کو کسی دوسرے ملک میں آباد کیا جا سکتا ہے۔

صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی، خاص طور پر نوجوان نسل کو نشانہ بنانے کے باعث، غزہ کی پٹی میں آبادی کی ساخت میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، جو آنے والے برسوں تک جاری رہیں گی۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل کی جانب سے امریکہ  کی مکمل حمایت سے شروع کی گئی نسل کشی کے بعد سے اب تک باسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف ان لاشوں پر مبنی ہیں جو اسپتالوں تک پہنچائی جا سکی ہیں اور ریکارڈ میں شامل کی گئی ہیں، اس لیے حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہزاروں خاندانوں کو نشانہ بنا کر مکمل طور پر مٹا دیا گیا ہے۔

وہ فلسطینی خاندان جو تباہ حال غزہ میں مقیم ہیں، وہ اپنے کفیل کھو دینے کے بعد شدید سماجی اور معاشی مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ بحران وقت کے ساتھ مزید شدت اختیارکرے گا اور فلسطینی خاندانوں کے لیے مشکلات کا باعث بنا رہے گا۔

جب ریاستی سطح پر کسی قوم کو منظم طریقے سے بے دخل کرنے، ان کے گھروں کو مسمارکرنے، ان کی زندگی کے تمام وسائل، خوراک، پانی، دوا، تعلیم، رہائش سے محروم کرنے اور پھر انھیں باضابطہ طریقے سے قتل کرنے کا عمل ہو، تو اسے کسی بھی قانونی، اخلاقی یا انسانی زاویے سے ’’جنگ‘‘ نہیں کہا جا سکتا، یہ نسل کشی ہے، یہ نسلی صفایا ہے اور یہ وہی عمل ہے جس کی بنا پر ہولوکاسٹ جیسے سانحات کو عالمی تاریخ میں کبھی نہ بھلانے کا وعدہ کیا گیا تھا، مگر آج جب فلسطینیوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہو رہا ہے، تو اقوام عالم اور اقوام متحدہ کا ادارہ سوائے بیان بازی کرنے کے کچھ نہیں کر پا رہا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے ’’دفاع‘‘ کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے، وہ سراسر جارحیت، استعمار اور قبضے کی کھلی روشنی میں آتا ہے۔غزہ میںقحط ایک طے شدہ منصوبے کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اسرائیل اس وقت نہ صرف فوجی طاقت استعمال کر رہا ہے بلکہ نفسیاتی جنگ، میڈیا کنٹرول اور عالمی سفارت کاری کے محاذ پر بھی سرگرم ہے تاکہ اپنے اقدامات کو کسی نہ کسی طرح ’’جائز‘‘ ثابت کیا جا سکے۔

لیکن جب ایک قوم کو خوراک، پانی، دوا، بجلی، تعلیمی اداروں اور صحت کی سہولیات سے محروم کرکے کھلے آسمان تلے دھکیلا جاتا ہے، تو یہ جائز دفاع نہیں بلکہ ایک مجرمانہ ہدف ہوتا ہے، ایک ایسی سوچ جو کسی بھی انسان دوست معاشرے میں ناقابلِ قبول ہونی چاہیے۔

اقوام عالم کو اس ظلم پر خاموشی توڑنا ہو گی۔ اقوام متحدہ کا ادارہ اسرائیل کو قحط کا ذمے دار قرار دے رہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ  اسرائیل کی حمایت میں کھڑا ہے۔ اسرائیلی قیادت، خصوصاً وہ افراد جو ان پالیسیوں کے ذمے دار ہیں، جن میں وزیراعظم، وزیر دفاع اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شامل ہیں، ان افراد کو نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے، اگر دنیا نے سچ مچ کبھیNever Again کا نعرہ لگایا تھا، تو آج وہی لمحہ ہے کہ اسے ثابت کیا جائے۔

اقوام عالم خاص طور پر پسماندہ اور ترقی پذیر اقوام کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اگر آج غزہ میں بے رحمانہ مظالم ہو رہے ہیں اور اس کا مقصد اس علاقے پر قبضہ کرنا اور علاقے کے مکینوں کو نکالنا ہے تو کل طاقت ور اقوام کے کاروباری اور اسٹرٹیجک مفادات کسی اور علاقے کو بھی منتخب کر سکتے ہیںاور وہ وہاں بھی غزہ کی تاریخ دہرا سکتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے لیے بھی یہ صورت حال اچھی نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اس قسم کی صورت حال کا پیدا ہونا ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جتنی مرضی جنگ ہو لیکن اس خطے میں کبھی قحط کی صورت حال پیدا نہیں ہوئی۔ غزہ کے شہریوں کو بچانے اور انھیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے تمام ملکوں کو متحد ہو کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ غزہ فلسطینیوں کا ہے اور فلسطینیوں کے پاس ہی رہنا چاہیے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے