فلسطینی قیدی اور ذہنی اذیت

اسرائیل نہ صرف اپنے حملوں سے غزہ کو ایک کھنڈر میں تبدیل کر چکا ہے، بلکہ وہ فلسطینی قیدیوں کو اذیت دینے کے لیے غزہ کی تباہ شدہ تصاویر کو جیلوں میں لگانے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ اسرائیل کے داخلی سیکورٹی وزیر اٹامار بن گویر، جو غزہ کے بارے میں اپنے انتہائی نظریات کی وجہ سے بدنام ہیں، نے اسرائیلی اہلکاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اسرائیلی جیلوں کی دیواروں پر غزہ کی تباہ شدہ تصاویر لگائیں اور فلسطینی قیدیوں کو ہر صبح ان تصاویر کو دیکھنے پر مجبور کریں۔
یہ وہ طریقہ ہے جسے بن گویر نے فلسطینی قیدیوں کو ذہنی اذیت دینے کے لیے منتخب کیا ہے، اور وہ خوشی خوشی اس کا ذکر کرتے ہوئے اس پر فخر محسوس کرتا ہے۔ وہ اطمینان کے مسکراہٹ کے ساتھ ایک فلسطینی قیدی کی کہانی سناتا ہے جو ایک دن غزہ کی تصویر کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے گھر کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اسرائیلی اہلکار، غزہ کی پٹی پر دو سال تک مسلسل بے رحمانہ حملوں اور 62 ہزار سے زیادہ افراد کے شہید ہونے کے بعد بھی اپنے اقدامات پر اصرار کر رہے ہیں، جبکہ بین الاقوامی سطح پر اس ریژیم کے خلاف کوئی سخت روک تھام والی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
فرانس جیسے ممالک کی طرف سے فلسطین کو تسلیم کرنے کی کوششیں، تجزیہ کاروں کے خیال میں، غزہ کے مسئلے کے حل کے لیے ایک حقیقی عمل کے بجائے محض ایک "ڈپلومیٹک ژست” ہیں۔