امکان کم ھے کہ ایران اپنی جوہری اور علاقائی حکمتِ عملی میں تبدیلی کرے

IMG_20250820_190500_803.jpg

نصر: امکان کم ھے کہ ایران اپنی جوہری اور علاقائی حکمتِ عملی میں تبدیلی کرے

ولی نصر، سابق مشیر باراک اوباما، نے فارن اَفیرز میں ایک نوٹ میں لکھا:
اگر ٹرمپ نہیں چاہتے کہ ایران شمالی کوریا کے راستے پر چل کر ایک ایٹمی طاقت بنے ــ اور یہ بھی نہیں چاہتے کہ اسے روکنے کے لیے بار بار ایران کے ساتھ جنگ کرنی پڑے ــ تو ان کی حکومت کو لازمی طور پر ایک سفارتی حل تلاش کرنا ہوگا۔

ایران بھی اسی طرح امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ اتنی تیزی سے یا آسانی کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کو روکنے کے لیے جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ بنا سکتا ہے۔ لہٰذا تہران مجبور ہے کہ سفارتکاری کو سنجیدگی سے لے۔

ایران اور امریکہ پہلے بھی کئی بار ایسے نازک موڑ پر کھڑے رہے ہیں اور انہوں نے محاذ آرائی اور مفاہمت کے درمیان انتخاب کیا ہے۔
اس بار دونوں ملکوں کو سفارتکاری کو اپنانا ہوگا، نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیت پر فوری معاہدہ کرنے کے لیے، بلکہ اعتماد سازی اور تعلقات میں ایک نئے راستے کی تشکیل کے لیے بھی۔

ایٹمی سفارتکاری نقطۂ آغاز ہونی چاہیے، اختتام نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے