ٹرمپ اور امریکی جمہوریت کی موت… واشنگٹن کی "جمہوری ماڈل” کی دھجیاں اڑ گئیں

امریکہ جو دہائیوں تک خود کو "جمہوریت کا گہوارہ” کہلاتا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں کنگره پر حملے، احتجاجوں پر پابندی اور یونیورسٹیوں پر پابندیوں کی زد میں آکر اپنی ہی بنائی ہوئی اقدار کو روندتا نظر آیا۔ یہ رجحان نہ صرف ملک کے اندر حکومت کی قانونی حیثیت کو کمزور کر رہا ہے بلکہ بیرونی پالیسی میں یکطرفہ اقدامات کو بھی ہوا دے رہا ہے۔
6 جنوری 2021 کو ٹرمپ کے حامیوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے امریکی تاریخ کے سب سے شرمناک واقعے کا ارتکاب کیا۔ کانگریس کی عمارت پر دھاوا بولنے والے یہ باغیوں نے نہ صرف جمہوری روایات کو پامال کیا بلکہ یہ ثابت کر دیا کہ واشنگٹن اب "جمہوریت کے چیمپئن” کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کیلفورنیا اور دیگر ریاستوں میں احتجاج کرنے والوں کو کچلنے کے لیے فوج اور نیشنل گارڈ کو تعینات کیا۔ کیلفورنیا کے گورنر گاوین نیوسم نے اس اقدام کو "ڈکٹیٹر شپ کی طرز حکومت” قرار دیتے ہوئے عدالت میں چیلنج کیا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، ٹرمپ مستقل "فاسٹ ری ایکشن فورس” بنانے کے منصوبے بنا رہا ہے جو ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کر دے گا۔
آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹرمپ تیسری صدارتی مدت کے لیے تیاریاں کر رہا ہے۔ مارچ میں این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا: "میں مذاق نہیں کر رہا۔” اس کے ساتھ ہی انتخابی ضوابط میں تبدیلیوں کی کوششیں بھی جاری ہیں، جس پر ڈیموکریٹس نے بھی "جوابی کارروائی” کا اعلان کر دیا ہے۔
غزہ جنگ کے خلاف طلبہ احتجاج کو "یہود دشمنی” قرار دے کر ہارورڈ، کولمبیا اور پرنسٹن جیسی معروف یونیورسٹیوں پر اربوں ڈالر کے جرمانے عائد کیے گئے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے صدر جیمز میلیکن کا کہنا ہے کہ یہ اقدام "امریکی تعلیمی نظام کو تباہ کر دے گا۔”