امریکا نے عراق میں اپنی موجودگی کی شکل بدلنے کا اعلان کر دیا

امریکی سفارت کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ اپنی فوجی قوتوں کو عراق سے نکال رہا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے مشن کو ختم کر رہا ہے۔
امریکی سفارت کے ترجمان نے الجزیرہ اور شفق نیوز کو بتایا کہ عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی اطلاعات درست ہیں۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ یہ قدم امریکی مشن کے اختتام کی علامت نہیں ہے۔ ان کے مطابق، "بین الاقوامی اتحاد کی سرگرمیاں عراق میں جاری رہیں گی، لیکن فوجی تعاون کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی جو اب ‘دو طرفہ سلامتی شراکت داری’ کی شکل اختیار کر لے گا۔”
امریکی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ ان کا عراق میں مشن داعش کے خلاف جنگ ہے، اور یہ کہ فوجیوں کی واپسی سے یہ مشن متاثر نہیں ہوگا۔
– امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا اور اپنی فوجی موجودگی کو جاری رکھا۔
– 2011 میں فوجیوں کی تعداد میں کمی کی گئی، لیکن 2014 میں داعش کے ظہور کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دوبارہ عراق میں داخلہ لیا۔
– جنوری 2020 میں، عراقی پارلیمنٹ نے تمام غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا فیصلہ کیا، خاص طور پر اسرائیلی ڈرون حملے کے بعد جس میں جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس شہید ہوئے تھے۔
– عراقی حکومت نے زور دیا تھا کہ ملک کی سلامتی کا انحصار بیرونی فوجیوں پر نہیں ہونا چاہیے، لیکن امریکہ نے اس فیصلے کو نظر انداز کیا۔
اب کیا ہوگا؟
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ عراق میں اپنی موجودگی کو فوجی سے غیر فوجی شکل میں تبدیل کرے گا، جس میں تربیت، مشاورت اور تکنیکی تعاون شامل ہوگا۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ کیا عراقی حکومت اس نئی "شراکت داری” کو قبول کرے گی یا مزید انخلا کا مطالبہ کرے گی۔