یوکراین کے معدنی ذخائر اور زمین میں بندر بانٹ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں یوکرین کے معدنی ذخائر کو ایک ذلت آمیز معاہدے کے ذریعے زبردستی حاصل کیا تھا، اور جمعہ کو الاسکا میں ہونے والے اجلاس میں اعلان کیا کہ یوکرین کو اپنی کھوئی ہوئی زمینوں سے دستبردار ہو کر جنگ بندی میں تعاون کرنا چاہیے۔
ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان الاسکا اجلاس میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا، جسے کچھ نے "بہت شور شرابا مگر کچھ حاصل نہیں” قرار دیا۔ اجلاس میں جنگ ختم کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا، صرف مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔ مبصرین کے مطابق، پوٹن نے اس موقع پر روسی پالیسی کے تین اہم نکات دہرائے: مقبوضہ علاقوں کی سلامتی کو یقینی بنانا، یوکرین کے نیٹو اور یورپی یونین میں شمولیت کی مخالفت، اور یوکرین میں طاقت کے ڈھانچے میں تبدیلی۔
اس اجلاس میں سب سے زیادہ نقصان یوکراین کا ہوا، جس کے نمائندے کو شرکت کی اجازت تک نہیں دی گئی۔ ٹرمپ کے بیان کے مطابق یوکرین کو اپنی کھوئی ہوئی زمینوں سے دستبردار ہونا چاہیے، جو یوکرین کے لیے ایک اور ذلت تھی۔ اس سے پہلے ٹرمپ نے یوکرین کے معدنی وسائل پر بھی ناجائز قبضہ کر لیا تھا۔
امریکہ نے پوٹن کے لیے سرخ قالین بچھا کر اور یوکرین کی زمینیں روس کے حوالے کر کے ثابت کر دیا کہ مغرب کی چار سالہ کوششیں روس کو تنہا کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس پر یورپی رہنما غصے میں ہیں۔
تین گھنٹے طویل اجلاس میں ٹرمپ اور پوٹن کے درمیان گرمجوشی دیکھنے میں آئی۔ امریکی جنگی طیاروں نے اس موقع پر پروازیں بھی کیں۔ تاہم، مبصرین کے مطابق اس اجلاس کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
یورپی رہنما اس اجلاس کے نتائج سے سخت پریشان ہیں۔ یورپی کونسل اور نیٹو نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے یوکرین کی مکمل حمایت، روس پر دباؤ جاری رکھنے اور یوکرین کے نیٹو اور یورپی یونین میں شمولیت کے حق کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
امریکی میڈیا نے بھی اجلاس کو بے نتیجہ قرار دیا ہے۔ سی این این کے مطابق، اہم معاملات پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود اجلاس بغیر کسی معاہدے کے ختم ہوا۔یوکرینی میڈیا نے اجلاس کو "شرمناک” اور "بے معنی” قرار دیا ہے۔ کیف انڈیپنڈنٹ نے لکھا کہ ٹرمپ اپنی دھمکیوں پر قائم نہیں رہا۔ یوکرینی صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ پوٹن اپنے تمام مقاصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔