یورپی رہنماؤں کی وائٹ ہاؤس میں لابی: ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوششیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے الاسکا اجلاس کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی سے واشنگٹن میں ہونے والے ملاقات سے قبل یورپی رہنما ایک متحد پیغام کے ساتھ ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
بصیر نیوز کے مطابق، الاسکا اجلاس کے بعد جہاں ٹرمپ نے جنگ بندی کی شرائط کو نظر انداز کرتے ہوئے فیصلہ سازی کا اختیار یوکرین کے حوالے کیا، یورپی ممالک نے واشنگٹن میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔ جرمن چانسلر فریڈرک میرز، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، اطالوی وزیر اعظم جورجا میلونی، یورپی کمیشن کی صدر ارسولا فان ڈیر لیین، فن لینڈ کے صدر الیگزنڈر اسٹب، نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے اور برطانوی وزیر اعظم کئیر اسٹارمر سمیت متعدد یورپی رہنما زیلنسکی کے ساتھ اس اہم اجلاس میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسٹارمر دیگر یورپی رہنماؤں کے ساتھ مل کر "مذاکرات کے اگلے مرحلے” کی حمایت کریں گے اور یوکرین کو ان کی ضرورت تک "ہر ممکن مدد” جاری رہے گی۔
الاسکا اجلاس کے بعد ٹرمپ نے زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں کو مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اطلاعات کے مطابق روس اپنی شرائط پر قائم ہے، جن میں علاقائی دعوے بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ، جو نوبل امن انعام کے خواہشمند ہیں، روس کی ان شرائط کے تحت یوکرین پر دباؤ بڑھانے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
یورپی رہنما ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کے مفادات کو نظر انداز کرنے اور روس کے ساتھ نرم رویہ اپنانے پر تشویش کا شکار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ الاسکا اجلاس میں ٹرمپ نے یوکرین کے موقف کو کمزور کیا ہے۔
واشنگٹن اجلاس میں یورپی اتحاد ٹرمپ پر زور دے گا کہ وہ یوکرین کے لیے مضبوط سلامتی کی ضمانتوں اور اس کے علاقائی تحفظ کو یقینی بنانے والے معاہدے کی حمایت کریں۔ تاہم، ٹرمپ کا روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کا عزم یورپی کوششوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔