امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی عکاسی یا حقیقی اصلاحات کی کوشش؟

حالیہ دنوں میں ایران کے اصلاحات پسند گروپ کے جاری کردہ بیان نے شدید تنقید کو جنم دیا ہے، جس میں جوہری پروگرام میں رکاوٹ، مزاحمتی گروپوں کی حمایت میں کمی اور مغربی بیانیے کی پیروی جیسے نکات شامل ہیں۔ ناقدین اسے "امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگی” قرار دے رہے ہیں، جبکہ حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ملک کو معاشی اور سلامتی کے بحران سے نکالنے کا راستہ ہے۔
بیان کے اہم نکات میں رضاکارانہ طور پر یورینیم کی افزودگی معطل کرنے اور IAEA کی نگرانی کو قبول کرنے کی تجویز شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وہی مطالبات ہیں جو دشمن جنگ کے ذریعے مسلط کرنے میں ناکام رہا۔ بیان میں "میخانزم ٹرگر” کو فعال ہونے سے روکنے پر زور دیا گیا ہے، حالانکہ یورپی ممالک ایران کے جوہری معاملے کو سلامتی کونسل میں لے جانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔
بیان میں "علاقائی ہم آہنگی” اور فلسطین کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے، جسے ناقدین ایران کی جانب سے حماس اور حزبالله جیسے مزاحمتی گروپوں کی حمایت کم کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ یہ موقف اسرائیل کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتا ہے، جو خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتا ہے۔
بیان میں خواتین کے خلاف "منظم امتیاز” کا ذکر کیا گیا ہے، جسے ماہرین مغربی میڈیا اور تنظیموں کی رپورٹس سے متاثر قرار دے رہے ہیں۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ بیرونی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
بیان کا جنگ کے بعد کے ماحول میں جاری کیا جانا ماہرین کے نزدیک امریکہ اور اسرائیل کی "ہائبرڈ جنگ” کا حصہ ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین اصلاحات پسندوں پر ایران کو کمزور کرنے اور اسرائیل کے راستے ہموار کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔