اربعین کا عظیم الشان اجتماع

ان دنوں عراق میں مختلف ممالک سے آنے والے زائرین اربعین کی شاندار موجودگی اور عراقی عوام کی بے مثال مہمان نوازی نے دنیا کے سامنے حسینی مقاومت کے عظیم نمونے کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔
ایک بار پھر اربعین کے موسم میں ہم عراق کی سرزمین پر پہلے سے بڑھ کر شاندار انداز میں مختلف ممالک سے آنے والے عاشق زائرین کا نظارہ کر رہے ہیں۔ یہ وہ زائرین ہیں جن کے دلوں کو امام حسین(ع) کی محبت نے ایک کر دیا ہے، چاہے ان کی زبانیں، قومیتیں یا ظاہری شکلیں کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔ یہ عظیم انسانی لہر جو افریقہ، ایشیا، یورپ، امریکا اور دنیا کے دور دراز علاقوں سے اٹھی ہے، اسے دیکھ کر یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ سب مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ یہ سب ایک ہی پرچم تلے متحد نظر آتے ہیں۔
کیسے ممکن ہے کہ یہ کروڑوں کی تعداد میں شیعہ، سنی اور حتیٰ کہ غیر مسلم زائرین، جو مختلف قومیتوں اور پرچموں سے تعلق رکھتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوں؟ درحقیقت یہ سب امام حسین(ع) کی امت ہیں، جو سرور شہیدان کے پرچم تلے متحد ہیں۔ جس طرح الگ الگ قطرے مل کر ایک بے کراں سمندر بناتے ہیں، اسی طرح یہ سب امام حسین(ع) کے راستے میں ایک ہو گئے ہیں۔
اور پھر عراقی عوام کی مہمان نوازی بھی تو دیدنی ہے! جو زائرین کو ایک پیالہ پانی پیش کرنے سے لے کر لذیذ کھانوں کے دسترخوان تک، ہر ممکن طریقے سے خدمت کرتے ہیں۔ یہ ایسی محبت ہے جس کا تجربہ عام طور پر انسان صرف اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ہی کرتا ہے۔ کیا اس بے مثال مہمان نوازی کے بعد بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ زائرین اور میزبان ایک امت نہیں؟
یہی وجہ ہے کہ اربعین کی یہ عظیم الشان عبادت دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع بن چکی ہے۔ لیکن یہ محض ایک مذہبی تقریب نہیں، بلکہ اس کے ہر موڑ پر حق و حقیقت کے لیے کھڑے ہونے، ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور مظلوموں کی حمایت کا جذبہ نمایاں ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے اربعین کو ایک سیاسی میدان اور "حسینی مقاومت” کا عملی مشق بنا دیا ہے۔
کئی سالوں سےاربعین کے موقع پر مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں آواز اٹھانا ایک معمول بن چکا ہے۔ لیکن اس سال امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا جذبہ پہلے سے کہیں زیادہ واضح نظر آیا۔ اس کی وجہ ایران کا 12 روزہ مقدس دفاع ہے، جس نے پوری اسلامی دنیا میں امید کی نئی کرن پیدا کی ہے۔
عراق اور دیگر ممالک سے آنے والے زائرین نے ایرانی زائرین کے ساتھ مل کر ایران کی صہیونیست دشمن پر فتح کا جشن منایا۔ راستے میں لگے ہوئے موکبز پر رہبر انقلاب کی تصاویر اور ان کے لیے عقیدت کے اظہار نے بھی اربعین کے اس سیاسی پہلو کو مزید اجاگر کیا۔
کیا ہم اس حقیقت کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ امام حسین(ع) کے راستے میں اسلامی امت کا اتحاد دن بدن بڑھ رہا ہے؟ یہ اتحاد جس نے 1400 سال بعد بھی دشمنوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، کیا یہ اللہ کے اس وعدے کی تکمیل نہیں کہ وہ مسلمانوں کو متحد کرے گا؟
یہی وہ اتحاد ہےجس نے دشمن کو خوفزدہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ نہ صرف دنیا کے سب سے بڑے مذہبی و سیاسی اجتماع کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہا ہے، بلکہ اس اتحاد کو توڑنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے پر تلا ہوا ہے۔
لیکن امت مسلمہ جو سالہا سال تک تفرقے کی زد میں رہی ہے، اب خدا کے فضل سے امام حسین(ع) کے پرچم تلے متحد ہو چکی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے فتح تک پہنچائے گا۔
اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران (آیت 103) میں فرماتا ہے:
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (دین) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جب تم آپس میں دشمن تھے، پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، تو تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ اسی طرح اپنی نشانیاں تمہارے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔”
یہ حسینی مقاومت کا یہ عظیم نمونہ ہر سال دشمن کے دل میں خوف اور مسلمانوں کے دلوں میں امید پیدا کرتا ہے۔ یہ درحقیقت اللہ کے وعدے کی تکمیل اور امام زمانہ(عج) کے ظہور کی تیاری ہے۔ بے شک اربعین کا یہ سفر مہدی موعود(عج) کے ظہور کا پیش خیمہ ہے۔