جواری کا اسکینڈل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی دوست جیفری ایپسٹین نے برسوں تک نوعمر لڑکیوں کی سمگلنگ کا ایک وسیع نیٹ ورک چلایا۔ وہ یہ دھندا خاص طور پر نیویارک، فلوریڈا اور لٹل سینٹ جیمز نامی اپنے نجی کیریبین جزیرے میں کرتا تھا۔ ان لڑکیوں کو، جن میں سے اکثر کا تعلق کمزور اور کم آمدنی والے خاندانوں سے تھا، دھوکہ دہی یا طاقت کے بل بوتے پر ایپسٹین کے مالی مفادات کی تکمیل کے لیے مجبور کیا جاتا تھا۔ جنسی اسمگلنگ کا اسکینڈل اس وقت ٹرمپ سے جڑا جب وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ 2003 میں ایپسٹین کو ان کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر لکھے گئے خط میں ٹرمپ نے ایک فحش ڈرائنگ پر دستخط کیے اور ایسے جملے لکھے جو مین ہٹن ٹاور کے سابق بلڈر اور جنسی اسمگلر کے درمیان خفیہ اور مشکوک تعلقات کی نشاندہی کرتے تھے۔ صدی کے سب سے بڑے جنسی اسکینڈل کے مرکزی ملزم کو ٹرمپ کی طرف سے ایک خط کے انکشاف کے چند ہی گھنٹے بعد، 47 ویں امریکی صدر نے اپنے سابق ڈیموکریٹک ہم منصب براک اوباما پر الزام لگایا کہ وہ ان کے خلاف "طویل مدتی بغاوت” کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس الزام کا مقصد یہ تھا کہ شاید وائٹ ہاؤس پر دباؤ کم کیا جا سکے۔ اگرچہ امریکہ مختلف معاشی اور سماجی بحرانوں کا شکار ہے لیکن ملک کی سیاسی اشرافیہ نے خانہ جنگی کا رخ کر لیا ہے جو تاریخ میں ہمیشہ سپر پاورز کے عنقریب زوال اور انحطاط کی علامت رہی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو، ٹرمپ کی طرف سے ایپسٹین کو لکھے گئے خط کے انکشاف کے چند گھنٹے بعد، امریکی صدر نے اٹارنی جنرل پام بنڈی سے کہا کہ وہ عدالت کی منظوری سے "نیویارک کے استغاثہ کی جانب سے 2019 کی گرفتاری کے دوران جمع کی گئی کوئی بھی عظیم جیوری گواہی” جاری کریں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس متنازعہ مقدمے سے منتخب دستاویزات جاری کر کے ٹرمپ خود کو ایپسٹین کے قریبی دوست کے طور پر بری کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور خود کو مظلوم ظاہر کر کے امریکی شہریوں کی نظر میں بے قصور بننا چاہتا ہے۔ اسی سلسلے میں امریکی صدر نے "سوشل ٹروتھ” نامی چینل پر بات کرتے ہوئے مخالفین پر شدید تنقید کی اور لکھا: "اگر ایپسٹین کے خلاف کوئی شواہد پائے جاتے تھے تو کیوں ڈیموکریٹس نے ان کا استعمال نہیں کیا جن کے پاس چار سال تک فائلیں موجود تھیں؟ کیونکہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا!” لیکن جلد بازی میں ٹرمپ کا یہ دفاع اپنے حامی حلقوں میں بڑھتی ہوئی خلیج کو دور کرنے میں ناکام رہا۔ ایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن، جو ٹرمپ کے اتحادی بھی ہیں، نے ایپسٹین کیس سے متعلق تمام دستاویزات منظرعام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: "پام بنڈی کو امریکی عوام کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔” امریکی صدر ٹرمپ اپنے مخالفین سے بچنے کے لیے ان کے خلاف جارحانہ انداز اپنانے کی حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔ لہذا اس بار بھی ٹرمپ نے انٹیلی جنس کمیونٹی اور اوباما پر شدید حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ صحافیوں کے اس سوال پر کہ تفتیش کا اصل ہدف کون ہونا چاہیے؟ ٹرمپ نے کہا: "میں نے جو کچھ پڑھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش کا سرغنہ کوئی اور نہیں بلکہ صدر اوباما تھا۔ بائیڈن بھی اس کے ساتھ تھا۔ کومی، کلیپر اور سب تھے، لیکن اصل کمانڈر باراک حسین اوباما تھا، کیا آپ نے اس کا نام سنا ہے؟”