دنیا ہوبیشین انارکی کی طرف گامزن

بین الاقوامی تعلقات عامہ کے ایک مشہور نظریہ دان الیگزینڈر وینڈٹ کا عالمی نظام میں انارکی کی نوعیت کے بارے میں ایک اہم بیان ہے: "انارکی وہ چیز ہے جس کا تصور ریاستیں کرتی ہیں۔” حقیقت پسندوں کے برعکس، جو انتشار کو مرکزی اتھارٹی کی عدم موجودگی میں خودمختار ریاستوں کے درمیان مستقل تصادم کی حالت کے طور پر دیکھتے ہیں اور لبرل ازم کے پیروکاروں کی جانب سے بین الاقوامی نظام میں انتشار کی تعریف کوآپریٹو تعلقات کی بنیاد پر کیے جانے کے برعکس، وینڈٹ انارکی کو خالی برتن کی طرح قرار دیتا ہے جس کا مواد (تصادم، تعاون یا دونوں کا امتزاج) اس پر منحصر ہے کہ ریاستیں اس کے بارے میں کیا رائج تصور رکھتی ہیں۔ وینڈٹ انارکی کی تین اقسام بیان کرتا ہے: ہوبیشین انارکی (ہابز کی انارکی)، لوکین انارکی (جان لاک کی انارکی) اور کومٹے کی انارکی۔ دنیا نے مختلف ادوار میں ان میں سے کچھ قسم کی انارکی (جیسے ہوبیشین اور لوکین) کا تجربہ کیا ہے، جبکہ کامٹے کی انارکی جیسی دیگر اقسام صرف دنیا کے کچھ حصوں میں یا کسی خاص زمانے میں غالب رہی ہیں۔ وینڈٹ کے مطابق ممکن ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاستیں اس بات پر یقین کرنے لگیں کہ ان کے باہمی تعلقات تصادم پر مبنی ہیں، لہذا وہ فطری طور پر باہمی رویے کو بھی اسی تصور کی بنیاد پر اختیار کریں گے۔
یہ تصور ایسی حالت کی پیدائش کا باعث بنتا ہے جسے وینڈٹ "ہوبیشین کلچر” کہتا ہے جو ہمیشہ جنگ اور تنازعات کی حالت ہے اور وہ ریاستوں کے مشترکہ نظریات کا نتیجہ ہے۔ اس قسم کی انارکی میں، دوسری ریاستیں ایسی دشمن قرار پاتی ہیں جو ہمیں تباہ کرنے یا غلام بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ انارکی کی ایک اور قسم وہ ہے جس میں ریاستیں ایک دوسرے کو مخالف حالات کے لحاظ سے نہیں بلکہ مقابلے کے لحاظ سے تصور کرتی ہیں۔ وینڈٹ اسے لاکی انارکی کا نام دیتا ہے اور اس کی تعریف "جیو اور جینے دو” کے مشہور اصول کی بنیاد پر کرتا ہے۔ انارکی کی تیسری قسم کامٹے کلچر پر مبنی ہے جو ہوبیشین انارکی سے تضاد رکھتی ہے۔ اس قسم کی انارکی کی بنیاد ریاستوں کا یہ تصور ہے کہ وہ آپس میں دوست ہیں اور اس پر غالب ثقافت نہ تو تنازعہ ہے اور نہ ہی مقابلہ، بلکہ دوستی ہے۔ حقیقت پسندوں کے برعکس، جو دنیا کو ہوبیشین انارکی کے لیے کھیل کے میدان کے طور پر دیکھتے ہیں، وینڈٹ کا خیال ہے کہ دنیا ویسٹ فیلین آرڈر (ریاستوں پر مبنی آرڈر) کے بعد سے تین صدیوں سے لاکی کلچر (مقابلہ) سے بہت زیادہ متاثر رہی ہے۔ بلاشبہ، ہوبیشین انارکی (مستقل تنازعہ) نے بھی کبھی کبھار خود کو ظاہر کیا ہے، لیکن اکثر مواقع پر موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کی خواہاں ریاستوں نے ہوبیشین انارکی کا مقابلہ کیا ہے۔
وینڈٹ کا بیان کردہ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ انتشار کا مطلب لازمی طور پر مستقل جنگ یا مضبوط دوستی یا مقابلہ نہیں ہیں۔ یہ کہ بین الاقوامی سیاست میں پائی جانے والی انارکی پر کون سا اصول (دوستی، دشمنی، یا مقابلہ) حکمفرما ہے اس بات پر منحصر ہے کہ ریاستیں ایک دوسرے کے بارے میں کیا تصور رکھتی ہیں اور دراصل یہیں سے اس کا مشہور بیان یعنی "انارکی ریاستوں کا تصور ہے” معنی و مفہوم پیدا کرتا ہے۔ کیا ان کا تصور یہ ہے کہ وہ دائمی مقابلہ میں ہیں، یا دائمی جنگ اور جھگڑے میں ہیں ؟ یا دائمی امن میں ہیں؟ ایک تعمیری ماہر کے طور پر وینڈٹ نے اپنی مشہور کتاب "دی سوشل تھیوری آف انٹرنیشنل پولیٹکس” میں، جسے 1991ء سے 2000ء کے دوران بہترین کتاب کے طور پر چنا گیا تھا، ضمنی طور پر (یا شاید واضح طور پر) اس امید کا اظہار کیا کہ ریاستیں کامٹے انارکی حکمفرما کر کے آئندہ کئی دہائیوں تک باہمی دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ البتہ اسی نظریے کے باعث ان پر لبرل ازم کا لیبل لگا تھا۔ وینڈٹ کے نقطہ نظر پر ہونے والی تنقیدوں سے قطع نظر، ایسا لگتا ہے کہ آج کی دنیا، وینڈٹ کی امید کے برعکس، کامٹے انارکی (مقابلہ) کو الوداع کہہ رہی ہے اور ہوبیشین انارکی کی طرف سنجیدہ قدم اٹھا رہی ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن اور جس طرح اسرائیل نے اس کا جواب دیا اس نے بہت سی چیزیں بدل دی ہیں اور اب اسرائیل کی ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ میں اور بھی زیادہ چیزیں بدل رہی ہیں اور دنیا کے افق پر ہوبیشین انارکی کے دور میں داخل ہونے کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو رہا ہے۔
ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ نے دنیا پر جو سب سے زیادہ اثر ڈالا وہ دوسروں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں واضح یا ضمنی اصولوں پر عدم اعتماد تھا۔ اسرائیل نے سفارت کاری کے عروج پر نہ صرف مذاکرات کی میز پر بم گرایا بلکہ اس نے کئی ایرانی جوہری سائنس دانوں اور اعلیٰ کمانڈروں (جن میں تین فرسٹ رینک کمانڈرز بھی شامل ہیں) کو غیر متوقع طور پر نشانہ بنا کر دنیا کو ایک غیر معمولی صدمہ پہنچایا۔ اب بہت سی دوسری ریاستیں بھی یہی سوچ رہی ہیں کہ "شاید ہمارا انجام بھی ایسا ہی ہو گا” ایران کے خلاف اسرائیل کی 12 روزہ جنگ نے بہت سی دوسری چیزوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا، جس میں سیاسی رہنماؤں کو نشانہ نہ بنانے یا ان کو قتل کرنے کی دھمکی نہ دینے کا دیرینہ اصول بھی شامل ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دہائیوں میں دنیا نے اس نانوشتہ اصول کو تسلیم کر لیا تھا کہ جنگ میں سیاسی لیڈروں کو قتل یا قتل کی دھمکیاں دے کر اعلیٰ ترین سطح پر عدم اعتماد پیدا کر کے سفارت کاری کے دروازے بند نہیں کرنے چاہئیں لیکن اب یہ تمام اصول ایک ماہ کے ایک حصے میں ہی بدنام ہو چکے ہیں۔ اسرائیل نے اس 12 روزہ جنگ میں دنیا کو جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی بدولت کوئی بھی چیز محفوظ نہیں اور وہ مسلسل اس کا پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ حملے روک دینے کے بعد حالیہ دو ہفتوں میں (ایرانی عوام جنگ بندی کا لفظ استعمال کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں)، دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل اسلحہ کے ذخائر دوبارہ بھرنے میں مصروف ہے۔
زیادہ تشویشناک رجحان یہ ہے کہ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے کونے کونے میں اسلحے کی خریداری سے متعلق رپورٹوں اور خبروں کا ایک بڑا اور تشویشناک حجم شائع ہو رہا ہے۔ ترکی F-35 طیاروں کی فوری وصولی کا خواہاں ہے جس کا وعدہ امریکیوں نے بہت پہلے کیا تھا۔ قطری امریکہ سے THAAD سسٹم حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک انٹرسیپشن سسٹم جس سے اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ ہر سال 100 سے کم میزائل بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور خود امریکی اس کے انخلا کی فکر میں ہیں۔ عراق، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اپنے موجودہ دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں۔ مصری اپنے فضائی دفاع کو روسی اور چینی نظاموں کے مرکب سے لیس کرنا چاہتے ہیں۔ یونان نے 20 F-35 لڑاکا طیاروں کی خریداری کو حتمی شکل دے دی ہے اور جمہوریہ چیک، فن لینڈ، جرمنی، رومانیہ اور کینیڈا نے امریکہ سے F-35 کا آرڈر دیا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یورپی حکومتیں 2015 سے 2019 کے پانچ سالہ عرصے کے مقابلے میں 2020 اور 2024 کے درمیان اپنے ہتھیاروں کی درآمدات میں تقریباً 155 فیصد اضافہ کریں گی اور اگر یہ اسی شرح پر جاری رہیں تو 2025 ان کے لیے ممکنہ طور پر ایک اہم موڑ ثابت ہو گا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتیں اس نتیجے پر پہنچ رہی ہیں کہ انہیں ہر قیمت پر خود کو زیادہ سے زیادہ مسلح کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی نظام پر حکمفرما انارکی کا تصور غیر معمولی انداز میں بدل رہا ہے۔ یہ واقعی تشویشناک اور افسوسناک ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ دنیا اس بے مثال بے اعتمادی کے سائے میں ہوبیشین انارکی کی طرف بڑھ رہی ہے جو اس وقت اسرائیلیوں نے پیدا کی ہے اور ٹرمپ کے امریکہ نے بھی اسے ہوا دی ہے۔ اگر "مار ڈالو یا مر جاو” کی ذہنیت حکومتوں پر رائج تصور میں تبدیل ہو جائے تو کوئی پرامن مستقبل تصور نہیں کیا جا سکتا۔