امام حسینؑ مولانا مودودیؒ کی نظر میں

n01218687-b.jpg

تحریر: سید نثار علی ترمذی

مولانا مودودیؒ کو جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے قلم سے اپنا مافی الضمیر بیان کرسکیں، وہیں انھیں قوت گویائی بخشی، جس سے انھوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ یوں ان کا علمی ذخیرہ تقریری صورت میں بھی موجود ہے۔ انھوں نے جہاں دیگر موضوعات پر اظہار خیال فرمایا، وہاں اپنے بزرگوار امام حسین ؑ اور ان کی تحریک کے بارے میں بھی کئی مقامات پر اظہار خیال کیا۔ جنھیں اس مضمون میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گو یہ اس حوالے سے مولانا کے خیالات کا مکمل احاطہ تو نہیں کرتا، مگر اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ تحریک حسینی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

حقیقی دینداری
’’تصوف‘‘ کی بحث کو سمیٹتے ہوئے اور احسان کی منزل کی نشاندہی کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: "احسان کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد آپ خود ہی اندازہ کرلیں، جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں، جن کے سامنے حدوداللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کر دی جائیں، خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کر دیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہو رہا ہو، نظام کفر کے تسلط سے نہ صرف عام انسانی سوسائٹی میں اخلاقی و تمدنی فساد برپا ہو، بلکہ خود امت مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہو رہی ہو اور یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی پیدا ہو، نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے، بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبہ پر اصولاً و عملاً مطمئن کر دیں۔

ان کا شمار محسنین میں کس طرح ہوسکتا ہے۔؟ اس جرم عظیم کے ساتھ محض یہ بات انھیں احسان کے مقام عالی پر کیسے سرفراز کرسکتی ہے کہ وہ چاشت، اشراق اور تہجد کے نوافل پڑھتے رہے، جزئیات فقہ کی پابندی اور چھوٹی چھوٹی سنتوں کے اتباع کا سخت اہتمام فرماتے رہے اور تزکیہ نفس کی خانقاہوں میں دینداری کا وہ فن سکھاتے رہے، جس میں حدیث و فقہ اور تصوف کی باریکیاں تو ساری موجود تھیں، مگر ایک نہ تھی وہ حقیقی دینداری جو ’’سرداد نہ داد دست در دست یزید‘‘ کی کیفیت پیدا کرے اور بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا‘‘ کے مقام وفاداری پر پہنچا دے۔(۱)

یزید کی حکومت
امام حسینؑ جن قوتوں کے خلاف برسرپیکار تھے۔ امت کا ان کے بارے میں کیا خیال تھا اور انھوں نے کتنے بڑے انحراف کے خلاف قیام تھا، اس کے بارے میں مولانا مودودیؒ کے خیالات ملا حظہ فرمائیں: اس سوال کے جواب میں کہ ’’اموی خلفاء صحیح معنوں میں خلفاء کہلائے جانے کے مستحق ہیں؟‘‘ مولانا مودودیؒ وضاحت کرتے ہیں: اموی فرمانروائوں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا، لیکن دستور(consititution) کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انھوں نے توڑ دیا تھا۔ نیز ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی۔ اس فرق کو ان کی حکومت کے آغاز ہی میں محسوس کر لیا گیا تھا۔ چنانچہ اس حکومت کے بانی امیر معاویہ کا اپنا قول یہ تھا کہ ’’انا اول الملوک‘‘ (میں سب سے پہلا بادشاہ ہوں) اور جس وقت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تو اس وقت حضرت ابوبکر کے صاحبزادے عبدالرحمن نے اٹھ کر برملا کہا کہ ’’یہ تو قیصریت ہے کہ جب قیصر مرا تو اس کا بیٹا قیصر ہوگیا۔”(۲)

امام حسینؑ کی حیثیت
اُس دور کے مسلمان معاشرے میں اگر آزادانہ رائے کا موقع ملتا تو یقیناً امام حسین ؑ کا کوئی مدمقابل نہ تھا۔ یزید کا برسراقتدار آجانا اس دور کے جبر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس معاشرہ میں امام عالی مقام کا قیام کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ دین کا وارث موجود ہے اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کسی خوف کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا مودودیؒ یوں بیان کرتے ہیں: جس دور کے متعلق یہ سوال کیا گیا ہے، وہ حقیقت میں فتنے کا دور تھا۔ مسلمان اس وقت سخت انتشار ذہنی میں مبتلا ہوگئے تھے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس وقت عملاً مسلمانوں کا حقیقی لیڈر کون تھا، یہ بات بالکل واضح ہے کہ یزید کا سیاسی اثر جو کچھ بھی تھا، صرف اس بنا پر تھا کہ اس کے پاس طاقت تھی اور اس کے والد نے ایک مضبوط سلطنت قائم کرنے کے بعد اسے اپنا ولی عہد بنا دیا تھا۔ یہ بات اگر نہ ہوتی اور یزید عام مسلمانوں کی صف میں شامل ہوتا تو شاید وہ آخری شخص ہوتا، جس پر لیڈر شپ کے لیے مسلمانوں کی نگاہ انتخاب پڑ سکتی۔ اس کے برعکس حسین ابن علیؓ اس وقت امت کے نمایاں آدمی تھے اور ایک آزادانہ انتخاب میں اغلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ ان کے حق ہی میں پڑتے۔(۳) مولانا مودودیؒ نے ’’اغلب‘‘ کا لفظ استعمال کرکے احتیاط سے کام لیا ہے۔

واحد نمونہ
امام حسینؑ کے اقدام اور قیام کی منفرد آفاقی حیثیت پر مولانا مودودیؒ کی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور غیر اسلامی طریقے سے چلائی جا رہی ہو تو مسلمانوں کو سخت الجھن پیش آتی ہے۔ قوم مسلمان ہے، حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، مگر چلائی جا رہی ہے غیر اسلامی طریقے پر تو اس حالت میں ایک مسلمان کیا کرے۔ اگر حضرت حسینؓ نمونہ پیش نہ کرتے تو کوئی صورت راہنمائی کی نہ تھی۔ حضرت حسنؓ اور حضرت معاویہ میں صلح ہوگئی تھی اور حکومت حضرت معاویہ کو حاصل ہوگئی تھی۔ بعد میں کتنی ہی باتیں ایسی سرزد ہوئیں، جو حضرت حسینؓ کے نزدیک نامناسب تھیں۔ مگر انھوں نے حضرت معاویہ کو ہٹانے کی کوشش نہ کی، اس وجہ سے کہ ایک خلیفہ وقت سے ان کا معاہدہ ہوچکا تھا۔ دوسرے تلوار اٹھانا ناگزیر نہیں ہوگیا تھا۔ اگر کسی مسلمان حکومت کا بگاڑ جزئیات میں ہے تو نظم و نسق درہم برہم کرنے کی کوشش روا نہ ہوگی، مگر جب بادشاہ یا خلیفہ نے اس حکومت کو موروثی بنانے کی کوشش کی تو اصولی تغیر واقع ہوگیا۔

ایک خاندان نے حکومت کو اپنی جائیداد بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ خواہ اس میں ان کی جان جائے اور ان کا بچہ بچہ کٹ جائے۔ اسلامی حکومت کی اصولی نوعیت ہے کہ:
۱۔ ملک اللہ کا ہے۔
۲۔ اس پر حکومت مسلمانوں کی ہے۔
۳۔ جس حکومت سے مسلمان راضی ہوں، وہ صحیح حکومت ہے۔
۴۔ جس کے ہاتھ میں حکومت ہو، وہ ملک کے بیت المال اور خزانے میں اس طرح تصرف کرے، جس طرح یتیم کے مال میں تصرف کرنے کا حکم ہے، یعنی اگر مفلس ہے تو بقدر کفاف اس میں سے لے، اگر غنی ہے تو اس سے اجتناب کرے۔
حضرت امیر معاویہ بغیر رضامندی عوام کی حکومت پر قابض ہوگئے تھے۔ ان کی حکومت میں مسلمانوں کی رضامندی کو کوئی دخل نہ رہا تھا اور ملک کے مال میں بھی تصرف ہونا شروع ہوگیا تھا۔ تاہم حضرت حسینؓ نے برداشت کیا، مگر جب اس میں تغیر کیا گیا کہ حکومت کو موروثی بنا دیا جائے تو حضرت حسینؓ نے ولی عہدی اور ولی عہد کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت حسینؓ نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس لے جائو، میں اس کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا تو یہ درست نہیں بلکہ انھوں نے کہا تھا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دو اور پھر اس سے فیصلہ کرنے دو، خواہ وہ میرے قتل کا فیصلہ کر دے۔ حضرت حسینؓ نے یہ نمونہ پیش کیا کہ اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور وہ غلط راہ پر جا رہی ہو تو اس کے خلاف جدوجہد درست ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ نے تو بیعت کرلی تھی، حضرت حسینؓ نے کیوں نہ کی اور وہ ان کو مطعون کرتے ہیں، حالانکہ جب مسلمان حکومت پوری طاقت سے قائم ہو اور اس کے خلاف اٹھنا ہما شما کا کام نہیں، صرف وہ اٹھ سکتا ہے، جو فیصلہ کرچکا ہو کہ وہ اٹھے گا، خواہ کچھ ہو جائے۔

جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں، ان کو صحابہؓ کی طرف سے صفائی پیش کرنی چاہیئے، نہ کہ حضرت حسینؓ کو مطعون کرنا۔ اٹھنے والے سے صفائی پیش کرنے کا کیا موقعہ ہے۔ صحابہ کرامؓ کی پوزیشن صاف کی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کا یہ کام نہیں تھا۔ یہ حضرت حسینؓ ہی کا نمونہ تو ہے کہ جو مسلمان حکومت کے بگاڑ کے وقت مسلمانوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ اگر اس نمونے کو بھی بگاڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا۔ معاملہ صرف یہ نہیں کہ جگر گوشہ رسولؐ کو قتل کر دیا گیا اور ہم نوحہ خوانی کے لیے بیٹھے ہیں بلکہ نمونہ حاصل کرنے کا ہے۔ حضرت علیؓ کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف ہو تو کیا کرنا چاہیئے اور حضرت حسینؓ کا نمونہ یہ ہے کہ مسلمان حکومت بگڑ رہی ہو تو مسلمانوں کا کام تماشبین بن کر بیٹھنا نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ اصلاح کے لیے کھڑا ہو جائے، خواہ وہ اکیلا ہی ہو اور خواہ کچھ نتیجہ ہو۔(۴)

یہ دور ہے کہ جب ان دونوں نمونوں کی سیرت کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان شخصیات کو فرقوں کے عنوان سے دیکھنے سے ان کے پیغام کو محدود کر دیا گیا ہے، حالانکہ ان کا پیغام امت کے لیے مشعل راہ ہے، جسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض نے فقط ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کو یاد رکھا، ان کی تعلیمات اور کردار کو بھول گئے۔ بعض نے سب ٹھیک ہے کہ پالیسی اپنائی۔ بعض تعصب کے اندھیروں میں کھو گئے، لیکن یہ روشن مینار آج بھی بھٹکے ہوئے راہی کو منزل تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
مولانا مودودیؒؒ نے محرم الحرام کے حوالے سے ایک مشترکہ شیعہ سنی نشست میں خطاب کیا، جو جولائی ۱۹۶۰ء کے ماہنامہ ترجمان القرآن میں شائع ہوا۔ اس میں مولانا نے امام حسینؑ کی پوری تحریک کا جائزہ لیا۔ اس کا ماحصل پیش خدمت ہے:

مقصد شہادت
ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی، امام حسینؓ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں، لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں، جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے، ایسا رنج و غم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدر و قیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسینؓ کی وہ خصوصیت ہے کہ جس کی وجہ سے ۱۳۲۰ برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے۔؟

اگر یہ شہادت کسی مقصد عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور خود امام کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہے۔؟ انھیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے۔؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں، بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ و زاری کرکے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ کیا امام تخت و تاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی۔؟

کوئی شخص بھی جو امام حسینؓ کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے، یہ بدگمانی نہیں کرسکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خون ریزی کرسکتے تھے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے، جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتا تھا، تب بھی حضرت ابوبکرؓ سے لے کر امیر معاویہ تک پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہرگز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لا محالہ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں، جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا، حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تو نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔

ریاست کے مزاج، مقصد اور دستور میں تبدیلی
تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہو رہی تھی، وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مزاج اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے، لیکن ایک صاحب نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ مڑ رہی ہے، وہ آخر اسے کہاں لے جائے گا۔ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدہ فاطمہؓ اور حضرت علی ؓ کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور اس نے صحابہؓ کی بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں، وہ کیوں اس نقطہ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو اس نئی لائن پر جانے سے روکنے کے لیے کھڑا ہوگیا اور کیوں اس نے اس بات کی پرواہ نہ کی، اس کے آگے کھڑے ہو جانے کا کیا نتیجہ ہوسکتا ہے۔

انسانی بادشاہی کا آغاز
یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا، اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا،جو ہمیشہ ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے۔

امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعطل
اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا، جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا، جو خدا کو ناپسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتح ممالک اور تسخیر خلائق اور باج و خراج اور عیش دنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ مولانا مودودیؒ کے مطابق اسلامی دستور کے یہ بنیادی اصول ہیں، جن میں سے ہر ایک کو بدل دیا گیا۔ ۱۔ آزادانہ انتخاب ۲۔ شورائی نظام ۳۔ اظہار رائے کی آزادی ۴۔ خدا اور خلق کے سامنے جواب ۵۔ بیت المال۔۔۔ ایک امانت  ۶۔ قانون کی حکومت ۷۔ حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات۔

امام حسین کا مومنانہ کردار 
ان اصولوں کے بیان کرنے کے بعد مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں: کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطہ آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہو گئیں، جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا، اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بتمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں، مگر یہ صاحب بصیرت آدمی جان سکتا ہے کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے، جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔ اس لیے امام حسینؓ اس پر صبر نہ کرسکے اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انھیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں۔ ان کا خطرہ مول لے کر بھی انھیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اس کوشش کا جو انجام ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔

مگر امام نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جو بات ثابت کی، وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں، جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنھیں اوپر نمبر وار گنوایا گیا ہے، دین اور ملت کے لیے وہ آفت عظمیٰ ہیں، جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اس سے دریغ نہ کرنا چاہیئے۔ کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے، مگر حسینؓ ابن علیؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا، اسی لیے انھوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔(۵)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے