خواتین کے لیے روشنی کا مینار

2727437-toseefahmedkhannew-1729273230-600x450.webp

بانو مشتاق کرناٹک کی مقامی زبان میں لکھتی ہیں۔ بھارت کی ایک اور ادیبہ Deep Ashasti نے ان کی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ بانو اپنے اطراف کی مسلمان خواتین کے مسائل کے بارے میں عمومی طور پر لکھتی ہیں کہ انٹرنیشنل بکر پرائز ایوارڈ کا اجراء برطانیہ میں جون 2004 میں ہوا تھا۔ یہ ایوارڈ برطانیہ کے Mangroupکی طرف سے دیا جاتا ہے۔ یہ انتہائی اہمیت کا حامل ادبی ایوارڈ اپنے اجراء کے بعد سے 2015سے ہر سال دیا جانے لگا۔ یہ ایوارڈ اگرچہ انگریزی زبان میں لکھی جانے والی کتابوں پر دیا جاتا ہے مگر دنیا کی اعلیٰ ادبی کتابوں جن کا انگریزی میں ترجمہ دستیاب ہوتا ہے۔

انعام دینے والی جیوری ان کتابوں کو بھی اپنی ترجیحی فہرست میں شامل کرتی ہے۔ اس انعام کی انتظامی کمیٹی کا دعویٰ ہے کہ انعام کا فیصلہ کرتے وقت مصنف یا مصنفہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس انعام کے مستحق ادیب کو 50,000 پونڈ دیے جاتے ہیں۔ پہلے اس ایوارڈ کے لیے دولتِ مشترکہ کے ممالک کے ادیبوں کو ہی مناسب امیدوار سمجھا جاتا تھا پھر اس ایوارڈ کا دروازہ پوری دنیا کے ادیبوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اس ایوارڈ کے مستحق ادیب کے انتخاب کے لیے ہر سال مارچ کے مہینے میں پوری دنیا سے 12 سے 13 کتابیں منتخب کی جاتی ہیں۔

اپریل کے مہینے میں 9 کتابیں منتخب ہوتی ہیں اور مئی میں ایوارڈ کا اجلاس ہوتا ہے۔ بانو مشتاق 3 اپریل 1948 کو بھارت کی ریاست حسن کرناٹکہ میں پیدا ہوئیں۔ جب بانو 8 سال کی تھیں تو ان کا داخلہ Kannada Language Missionary School میں ہوا مگر ان کی والدہ نے یہ شرط رکھی کہ بانو چھ ماہ کی مدت میں مقامی زبان سیکھیں گی۔ کرناڈا میں مسلمانوں کی خاصی بڑی آبادی ہے مگر مسلمانوں کا بیشتر حصہ رجعت پسند دقیانوسی خیالات کا حامل ہے۔ اس علاقے میں عورت کو برقع اور محرم کے بغیر گھر سے نکلنے کی آزادی نہیں ہے مگر بانو نے ان رکاوٹوں کو عبور کیا۔ انھوں نے اپنی پسند کی شادی کی جو اس وقت ایک مسلمان عورت کے لیے ایک بہت بڑا اقدام تھا۔ انھیں اپنی ازدواجی زندگی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ خاندان اور برادری کے دباؤ پر انھیں زبردستی برقعہ پہننے پر مجبور کیا گیا۔

بانو ایک وقت ان حالات سے اتنی پریشان ہوئیں کہ انھوں نے اپنے جسم پر مٹی کا تیل ڈال دیا۔ اس دوران ان کے شوہر آگئے اور انھیں بانو کے خطرناک عزائم کا احساس ہوا۔ بانو کے شوہر نے اپنا بیٹا ان کے سامنے ڈالا، ان سے معافی مانگی اور التجاء کی کہ وہ شوہر اور بچے کو چھوڑ کر نہ جائیں، یوں بانو میں ایک دفعہ پھر جینے کا حوصلہ پیدا ہوگیا۔ بانو کچھ عرصہ تک ایک مقامی اخبار میں رپورٹر رہیں اور کچھ عرصہ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو میں کام کیا۔ انھوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور ایک سماجی تنظیم میں عورتوں کی بہبود کے لیے کام کرنا شروع کیا۔

بانو کے افسانوں نے مسلمان عورتوں میں خاص طور پر آگاہی کا عمل تیز کیا تو رجعت پسند سماج کے دعویداروں نے بانو کے عزائم کو شکست دینے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کیے۔ ایک گمراہ کن نوجوان نے بانو پر چاقو سے حملہ کیا، اگر بانو کے شوہر بانو کی جان نہ بچاتے تو وہ قتل ہو جاتیں۔ بانو اور ان کے خاندان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ بانو کے خلاف فتویٰ بھی جاری کیا گیا مگر بانو نے ان ہتھکنڈوں کو اہمیت نہ دی۔ بانو مشتاق کی تخلیقات کو اب ملک میں تسلیم کیا جانے لگا۔ کرناٹک کا سب سے بڑا اعزاز Karnataka Sahitya Academy Award بھی انھیں دیا گیا اور کئی ادبی تنظیموں نے انھیں مختلف قسم کے ایوارڈ دیے۔

بانو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی کہانیوں کا محور غریب خواتین ہیں، جو اب بھی سماج کا سب سے پسماندہ طبقہ ہیں۔ انھوں نے اپنی ایک کہانی کے ایک کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بدقسمت عورت کو یہ بات سمجھا دی گئی تھی کہ مذہب عورت کو تعلیم کا حق نہیں دیتا۔ یہ بات اسلام کے بنیادی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے مگر صدیوں کی پسماندہ رسومات کو مذہبی رنگ دے کر عورتوں کو گھروں میں مقید کیا جاتا ہے۔ ان کی کم عمری میں زبردستی شادی کردی جاتی ہے اور ان ہی رسومات اور رواج کا سہارا لیتے ہوئے مسلمان عورتوں کو جائیداد کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ بانو مشتاق کا کہنا ہے کہ وہ سماج کے بیہمانہ حقائق پاور اسٹرکچر کے سامنے بیان کرتی ہیں۔

یہ پاور اسٹرکچر پدرسری نظام اور مذہبی سیاست کے ساتھ منسلک ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں اپنی کہانیوں میں وہ حقائق کو سنسر کرنے پر یقین نہیں رکھتیں مگر Sarcastition میں بیان کرتی ہیں تاکہ قاری اصل حقائق کو آسانی سے سمجھ سکے۔ ان کی کتاب کا ترجمہ کرنے والی مصنفہ Bashti کہتی ہیں کہ بانو کی کہانیوں میں بین السطور یہ لائن اہم ہوتی ہے کہ آج بھی مرد مکمل طور پر عورت کو کنٹرول کرتا ہے، وہ بانو مشتاق ادبی اور احتجاجی ادب کی تحریک Bandaya Sahitya سے متاثر ہیں۔ 1970سے شروع ہونے والی اس تحریک کا بنیادی نعرہ یہ تھا کہ "If you are writer, you are also a fighter”۔ یعنی اگر آپ لکھاری ہیں تو آپ کو ایک فائٹر بھی ہونا چاہیے۔ یہ تحریک ذات پات کے نظام کے خلاف بغاوت اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے ادبی محاذ پر آگاہی کی تحریک تھی۔

اس تحریک کا ایک خاص مقصد اقلیتی مذاہب کی ادیبوں کو تمام پسماندہ طبقات کے حقوق کے لیے ادب تخلیق کرنا تھا۔ بانو کے خلاف فتوے تو ضرور جاری ہوئے مگر رائے عامہ ان کے حق میں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ تین ماہ بعد یہ فتوے واپس لے لیے گئے اور اب کرناٹک میں مسلمان عورتوں کو مساجد میں جانے اور نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی ہے۔اب عورتیں رمضان المبارک کے علاوہ عید کے تہواروں میں مساجد میں جا کر نماز ادا کرتی ہیں۔ چند برسوں پہلے تک یہ تصور کرنا بھی ناممکن تھا۔ بانو مشتاق کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب سماج میں عورتوں کے حالات خاصی حد تک بہتر ہوگئے ہیں ۔ اب عورتوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے مگر اب بھی ایک برادری کی لڑکی دوسری برادری کے لڑکے سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے تو ایک طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔

کرناٹک ایک تاریخی ریاست ہے، اس کی آبادی کا 13 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ کرناٹک میں خواندگی کا تناسب 75.36 فیصد ہے جس میں مردوں میں خواندگی کا تناسب 82.47 فیصد اور خواتین میں یہ تناسب 68.00 فیصد ہے مگر مسلمانوں میں خواندگی کا تناسب 79.5 فیصد ہے۔ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اقلیتوں میں مسلمان خواتین میں خواندگی کا تناسب سب سے زیادہ ہے مگر اس کے باوجود گزشتہ صدی میں کرناٹک کی مسلمان خواتین کو پسماندہ رکھا گیا۔

معروف محقق اور انگریزی ادب کے طالب علم ڈاکٹر عرفان عزیز نے لکھا ہے کہ کرناٹک کی مسلمان خاتون ادیب بانو مشتاق کا کہنا ہے کہ سیاست، مذہب اور معاشرہ عورتوں کو فقط فرمانبردار بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ان کی کہانیوں کا مرکزی خیال عورتوں کی کم ترین سماجی حیثیت ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ موجودہ دور میں ’’ سچ عام طور پر ناپسندیدہ ہوتا ہے‘‘ ہم ایک ایسے وقت میں جی رہے ہیں جہاں سچ بولنے والوں کو دبایا جا رہا ہے اور اظہارِ رائے کے لیے برداشت مسلسل کم ہو رہی ہے۔ مذہب، سیاست اور معاشرے کے دیگر طاقتور طبقات عوام کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے ماحول میں بانو مشتاق کا ادب، کہانی، موسیقی اور رقص کو جوڑنے والی قوت کے طور پر پیش کرتا ہے یہ صرف لکھنے والوں ہی کا نہیں، ہم سب کا فریضہ ہے کہ ہم نفرت اور تعصب کے خلاف اتحاد اور ہم آہنگی کے بیانیے کو فروغ دیں۔

ان حالات میں ادب کو ایک پل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جس کا مقصد معاشرے کے کمزور طبقات کے درمیان تعلق پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’’ لوگوں کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا چاہیے‘‘ بظاہر یہ انتہائی سادہ لیکن گہرا اور انقلابی پیغام ہے۔ ایک ایسا پیغام جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جُڑے رہنا، ساتھ چلنا اور ایک دوسرے کو سننا، یہی ہماری بقا اور ترقی کا راستہ ہے۔ بانو مشتاق اور دیگر جرات مند خواتین کی جدوجہد کے اثرات بھارت کے دیگر ریاستوں کی مسلمان خواتین پر بھی پڑرہے ہیں۔

کورونا کی وباء سے پہلے دہلی کی پسماندہ بستی شاہین باغ کی مسلمان خواتین کا مودی حکومت کی انتہا پسندانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج اس کی کڑی تھی۔ بانو مشتاق کا اعزاز بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی خواتین کے لیے ایک لائٹ ہاؤس کے مانند ہے، وہ وقت جلد آئے گا جب پاکستان کی کسی خاتون مصنفہ کو یہ عالمی ایوارڈ ملے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے