2722308-RaeesFatimaNEW-1728586265-600x450.webp

مشاہدات‘‘ ہوش بلگرامی کی خودنوشت ہے جس میں مصنف نے ہندوستان کے بیش تر شہروں کی سیر کرائی ہے، خاص کر حیدرآباد دکن اور رام پور کا تذکرہ خاصی تفصیل سے کیا ہے۔

انھوں نے سقوط حیدر آباد اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا۔ ہوش صاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزاری، یہ کتاب راشد اشرف نے شایع کی ہے جو اکثر و بیشتر اچھی اچھی کتابوں سے قارئین کو روشناس کراتے رہتے ہیں۔ میرا مقصد یہاں ’’ مشاہدات‘‘ پر تبصرہ کرنا نہیں ہے بلکہ کتاب کے چیدہ چیدہ صفحات سے قارئین کو روشناس کرانا ہے۔ پہلے یہ سطریں دیکھیے۔

’’ ماں باپ کے لاڈ پیار بچوں کے مستقبل کو تاریک بنا دیتے ہیں،کچھ میں بھی اس قسم کی عادتوں کا خوگر رہا ہوں، جو جیب خرچ ملتا اس سے چوگنا دوست احباب کی خاطر مدارات میں، رنگ رلیوں کی چاٹ میں خرچ ہو جاتا، طلب سے زیادہ ملتا رہا اور حوصلے سے زیادہ خرچ کرتا رہا اور اس پر غور نہ کر سکا کہ دولت لٹانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ جائز ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے۔

یہ انسان کے قلب کو مطمئن رکھتی ہے، یہ عیبوں کو چھپاتی اور حاجتوں کو پورا کرتی ہے جس نے اس کی قدر نہ کی وہ رسوا ہو، جس نے اس کی حفاظت نہ کی وہ دنیا میں ناکام ہی نہیں خستہ وخراب ہوا۔‘‘

’’ بے اعتدالیاں وہ انسانی جرم ہے جو زندگی کو تباہ کر دیتی ہیں اور ناعاقبت اندیشیاں وہ گناہ ہے جسے خدا بھی معاف نہیں کر سکتا۔ فضول خرچی ایسی نہ کی جائے جو محتاج بنا دے اور بخل ایسا نہ ہو کہ دنیا لیئم کے لقب سے یاد کرے۔‘‘

ذکر ہو رہا ہے حیدرآباد دکن کا، یہاں ایک قوم بستی ہے جسے نوائت کہتے ہیں۔ ’’نوائتوں کے متعلق یہ بھی سنا تھا کہ ان کا دماغ سازشوں میں خوب کام کرتا ہے جس سے حیدرآباد میں نظام ثانی پناہ مانگتے تھے اور سپہ سالار جنگ بھی گھبراتے تھے۔ اس طبقے کی وجہ سے تمام مدراسیوں کی خوش حالی کی دعا مانگتے تھے تاکہ وہ اپنے وطن میں خوش رہیں اور حیدرآباد کا رخ نہ کریں۔ نوائتوں کے متعلق ایک قدیم کتاب ’’ کابوس نقرس صاحب القاموس‘‘ میں نوائتوں کے متعلق صفحہ 131 پر ڈاکٹر جی ہرکلائس کے حوالے سے یہ تحریر لکھی ہے جو نوائتوں کے متعلق ہے۔

’’اس گروہ کے لوگوں نے رسول خدا کے روضہ اقدس میں ایک سرنگ کھودنا شروع کی تاکہ جسد مبارک کو دور کے ملک لے جائیں، جب سرنگ پوری ہو چکی تو روضہ مطہرہ کے خدام کو خواب کے ذریعے اطلاع ہوگئی، انھوں نے دوسری صبح کو ان مجرمین کو شہر بدرکردیا۔ جہاں جاتے مارے پیٹے نکالے جاتے اور اپنے آپ کو ’’نوائت‘‘ یعنی نئے آنے والے کہلواتے تھے۔

آگرہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’1522 میں اس پر بابر قابض ہوا، ہمایوں کی تاج پوشی یہیں ہوئی، کوہ نور ہیرا یہیں ملا، شیرشاہ نے بھی یہاں حکومت کی۔ 1555 میں ہمایوں نے دوبارہ اس کو واپس لے لیا، 1615 میں جہانگیرکی تاج پوشی یہیں ہوئی، شاہ جہاں بھی تھوڑے عرصے یہاں رہا پھر شاہ جہاں آباد کی بنیاد ڈالی، مگر آخری عمر یہیں گزاری۔ وہ آگرہ جس کو اکبر آباد بھی کہتے ہیں، وہ آگرہ جہاں تاج محل کا شاہانی مقبرہ میاں بیوی کی سچی محبت کی قسم کھا رہا ہے اور دنیا کے تعمیری عجائبات میں اپنا شمار کرا رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے