ٹرمپ اور غیر ملکی طلباء کی بے دخلی، امریکہ کے ثقافتی تسلط کا زوال

3-5.jpg

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک متنازع تجویز کے ذریعے ہارورڈ یونیورسٹی کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ تجویز غیر ملکی طلباء کو نکال باہر کرنے پر مشتمل ہے جن کی تعداد خود ٹرمپ کے بقول یونیورسٹی کے کل طلباء کا 31 فیصد حصہ تشکیل دیتی ہے۔ اسی طرح ہارورڈ کی جانب سے ایسے ممالک کے شہریوں کو داخلہ دینے کی اجازت بھی منسوخ کر دی گئی ہے جو ان کے بقول اپنے طلباء کی تعلیم کے لیے ادائیگی نہیں کرتے اور کچھ کے امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی نہیں ہیں۔ اس تجویز نے، جس میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ ہارورڈ کے تعاون یا یہود دشمن گروہوں کی حمایت جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں، عالمی سیاست اور ثقافت میں امریکی یونیورسٹیوں کے کردار پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ امریکی یونیورسٹیوں کو، جو گذشتہ چند عشروں سے بین الاقوامی طلباء کی میزبانی کرتی آئی ہیں اب ایسی پالیسی کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں سب سے پہلے غیر ملکی طلبہ کو راغب کرنے میں ان یونیورسٹیوں کے کردار اور امریکہ کی عالمی حیثیت پر اس کے اثرات کو دیکھنا پڑے گا اور پھر اس بات کا جائزہ لینا پڑے گا کہ یہ نئی پالیسی دیرینہ امریکی حکمت عملی سے کیوں متصادم ہے؟

امریکی یونیورسٹیوں، خاص طور پر ہارورڈ جیسے اداروں کا کردار ہمیشہ سے محض تعلیمی مرکز سے کہیں زیادہ رہا ہے۔ جیسا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے "کلچرل ایکسچینج پروگرام” میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے امریکی حکومت ان بین الاقوامی طلباء کو داخلہ دے کر جن کی اکثریت اپنے ممالک کے مستقبل کی اشرافیہ قرار پاتے ہیں درحقیقت امریکی ثقافت اور اقدار کی دیگر ممالک تک منتقلی (یا ثقافتی یلغار) کا مناسب پیش خیمہ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ تاریخی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے سرد جنگ کے بعد سے دنیا بھر میں اپنی اقدار کو فروغ دینے کے لیے طلبہ کے تبادلے کے پروگرامز جیسے فلبرائٹ پروگرام (1946 میں قائم کیا گیا) کا استعمال کیا ہے۔ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے بقول 1962ء میں غیر ملکی طلباء کو داخلہ دینے کا مقصد انہیں امریکہ کی "اچھی اور بری چیزوں” سے روشناس کرانا تھا تاکہ وہ اپنے ملکوں میں واپس جانے کے بعد امریکہ کے بارے میں مثبت سوچ رکھ سکیں۔ کچھ تجزیات میں یہ تصور بدستور پایا جاتا ہے کہ غیر ملکی طلباء جو امریکی ثقافت بشمول جمہوریت، انفرادیت، اور پاپ کلچر کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان اقدار کے غیر سرکاری سفیر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

جب مشرق وسطیٰ، ایشیا یا افریقہ سے کوئی طالب علم ہارورڈ جیسی امریکی یونیورسٹی میں آتا ہے تو اسے امریکی نظریات اور طرز زندگی کی یلغار کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں طلبہ کے پروگرامز میں ہالی ووڈ کی فلموں سے لے کر سرمایہ داری اور آزاد منڈی کی معیشت سے متعلق خصوصی گفتگو تک شامل ہیں۔ یہ تجربہ خواہ لاشعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو، امریکہ کے بارے میں اس کا نقطہ نظر تبدیل ہو جانے کا باعث بنتا ہے۔ ان میں سے بہت سے طلباء اپنے ملک واپسی پر سیاسی یا اقتصادی رہنماوں کے طور پر ان اقدار کی عکاسی کرتے ہیں جو انہوں نے امریکہ میں سیکھی تھیں۔ مثال کے طور پر اردن کے شاہ عبداللہ دوم، جنہوں نے جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، نے اپنے دور حکومت میں امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات بنائے رکھے اور ان کی علاقائی پالیسیاں اکثر واشنگٹن کے مفادات سے ہم آہنگ رہی ہیں۔ یا بوریس جارڈن، ایک روسی فنانسر جس نے نیویارک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور روس واپس آنے پر روس کی سرمایہ داری کی طرف معاشی منتقلی میں کلیدی کردار ادا کیا جو امریکی فری مارکیٹ ماڈل کے ساتھ منسلک تھا۔

یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح امریکی یونیورسٹیوں نے عالمی اشرافیہ کو تعلیم دے کر ملکی مفادات سے ہم آہنگ رہنماؤں کا نیٹ ورک بنایا ہے۔ اس کے بعد یہ اثر افراد کی سطح سے آگے بڑھ کر عالمی نیٹ ورک کی تشکیل تک پھیل جاتا ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی طلباء دنیا بھر کے اپنے ساتھیوں اور ممتاز پروفیسروں سے ملتے ہیں جو بعد میں سیاسی، اقتصادی یا سائنسی تعاون کا باعث بنتے ہیں جس سے امریکہ کو مزید فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خالد بن فیصل، ایک سعودی شہزادہ جس نے ہارورڈ میں تعلیم حاصل کی، سعودی عرب واپس آنے کے بعد امریکی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ اقتصادی منصوبوں پر کام کرنے لگا۔ یہاں تک کہ امریکی یونیورسٹیوں کی بین الاقوامی شاخیں، جیسے کارنیل کا قطر کیمپس بھی اسی طرح کے عمل کو فروغ دے رہی ہیں۔ مقامی طلباء کو امریکی فریم ورک کے اندر تعلیم دے کر یہ شاخیں ان خطوں میں امریکی اقدار اور مارکیٹ اکنامکس کو فروغ دیتی ہیں جو شاید سیاسی طور پر امریکہ کے ساتھ منسلک نہ ہوں۔ اس نرم اثر و رسوخ کے طریقہ کار نے امریکہ کو برسوں تک دنیا بھر میں آنے والی نسلوں کے افکار اور نظریات کو کسی قسم کی فوجی مداخلت یا سیاسی دباؤ کی ضرورت پڑے بغیر، مغربی دنیا کے حق میں وضع کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔

لیکن اس نرم اثر و رسوخ والی مشینری کو اب ایک غیر متوقع چیلنج کا سامنا ہے۔ امریکی یونیورسٹیاں جو کبھی امریکی پالیسیوں کو فروغ دینے کا پلیٹ فارم ہوا کرتی تھیں حالیہ برسوں میں امریکہ کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک کے خلاف احتجاج کا مرکز بن گئی ہیں۔ یہ عمل خاص طور پر غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں اضافے کے بعد زیادہ انجام پایا ہے۔ مختلف امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ احتجاج جو بعض اوقات بین الاقوامی طلبہ کے زیر اہتمام انجام پاتا ہے، اسرائیل کی پالیسیوں اور اس کے لیے امریکہ کی غیر متزلزل حمایت کو چیلنج کر رہا ہے۔ ہارورڈ اور کولمبیا جیسی یونیورسٹیوں میں شدت اختیار کرنے والے ان مظاہروں کو قدامت پسند حلقوں نے ان اداروں کے اپنے اصل مشن سے "انحراف” کی علامت سے تعبیر کیا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے حال ہی میں کہا ہے کہ طلبہ کے لیے ریاست ہائے متحدہ میں داخل ہونا "ایک موقع ہے، حق نہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ "موقع” صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اس ملک کے قوانین اور اقدار کا احترام کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہارورڈ یونیورسٹی سے غیر ملکی طلبہ کو نکالنے کے لیے ٹرمپ کے اصرار کو ان حالات کا ردعمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ رات انہوں نے اعتراض کیا کہ نئے طلبہ اب امریکی سفیر کے طور پر کام نہیں کرتے انہیں ایسے ممالک سے لایا جاتا ہے جو امریکہ کے دوست ملک نہیں ہیں۔ تاہم، اس امریکی پالیسی کی وجہ سے ملک کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے اور دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر امریکہ کے زوال کی رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں تک بین الاقوامی طلبہ کی رسائی کو محدود کرنا نہ صرف ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ امریکہ کی ثقافتی یلغار کے اثرات کو بھی کم کر سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے