مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرینگے، حاجی لشکری رئیسانی

بلوچستان کی سیاسی شخصیت نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر حال میں بلوچستان کے وسائل اور حقوق کا دفاع کریں گے۔ اپوزیشن کے جن ارکان نے صوبے کے وسائل دوسروں کے ہاتھ میں دیئے وہ ایکٹ کے خلاف قرارداد لائیں یا پارلیمنٹ سے مستعفی ہوجائیں۔ بلوچستان کا مسئلہ قومی ہے، لیکن 70 سال میں اس کو طبقاتی مسئلہ پیش کرکے مسائل کو الجھایا گیا اور اس کی بہتری کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا گیا۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل بے دریغ طریقے سے طاقت کے زور پر لوٹے جا رہے ہیں اور اب وسائل لوٹنے کیلئے کراچی سے ایک فرضی ادارہ لاکر ان کو پیسے کھلائے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔ صوبے کے وسائل کی لوٹ مار میں سب شامل ہیں۔ آئندہ نسلوں کی بقاء کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی سے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پاس کرایا گیا۔ اب معدنیات کے حوالے سے اختیار صوبے کا نہیں، بلوچستان کے لوگ اپنی سرزمین پر اجنبی بن گئے۔ اپوزیشن قرارداد لائے کہ اسے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ قبول نہیں یا مستعفی ہوجائے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ اس حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں ڈیل کے ذریعے حکومت لائے جانے والوں کے ذریعے 5 منٹ میں ڈی ایچ اے کا ایکٹ منظور کرایا گیا اور بلاپیمودہ زمینوں کا اختیار سرکار کو دیا گیا، جبکہ ہم نے صوبوں کو 2008 میں صوبائی خودمختاری اور 18 ترمیم کے ذریعے اختیارات دیئے۔ لیکن 2013 سے 2018 میں ان کو پامال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 2008 میں بننے والی حکومت نے گوادر کو سرمائی دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ جسے بعد میں آنے والی حکومت نے واپس کیا۔ ہم نے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کرایا، لیکن 600 بلین ڈالر کا اثاثہ ایک بار پھر پراسرار اور مشکوک طریقے سے دوسروں کے حوالے کیا گیا۔ جس میں سیاسی جماعتیں بھی شامل رہی ہیں۔ ان کا احتساب ووٹ کے ذریعے کرنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومیں بعض اوقات تکلیف اور بحرانوں سے گزرتی ہیں۔ ہماری تاریخی سرزمین پر آج بدامنی ہے۔ بہت سے لوگ بحرانوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بلوچستان اس وقت بہت بڑے بحران سے گزر رہا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید بحران نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی کارکنوں و سماجی عمائدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ صوبے میں بدامنی، افراتفری اور حالات خراب کرکے شارٹ کٹ اختیار کرنے والے عروج پر پہنچ چکے ہیں۔ ہم نے ان کا راستہ روکنا ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ چیف آف سراوان نواب اسلم رئیسانی نے ہر موقع پر بلوچستان کے وسائل، حقوق کا دفاع کیا اور کسی بھی ایسے معاہدے یا پروگرام کا حصہ نہیں بنے۔ جس میں بلوچستان کے وسائل کا سودا کیا گیا ہو۔ جس میں ریکوڈک کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا۔ انہوں نے اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں صوبے میں ہونے والی قتل و غارت گری کے حوالے سے ایوان میں بااختیار کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ دانستہ طور پر پارلیمانی سیاست سے لوگوں کو دور رکھا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نوجوان ماضی کے انتخابات سے سبق سیکھیں کیونکہ ایک بار پھر آنے والے پانچ سالوں کے لئے منظورنظروں کے لئے راہ ہموار کی جائے گی۔ نوجوان نسل نے سہولت کاروں کا راستہ روکنا ہوگا۔