پاک بھارت تعلقات: ’’نیا بیانیہ، نیا آغاز‘‘

2723442-sarwarmunirrao-1728766577-600x450-1.webp

دنیا میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور جذباتی ہمسائیگی جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک پاکستان اور بھارت کی ہے۔ دونوں ممالک کا مشترکہ ماضی، ثقافتی و مذہبی روابط اور جغرافیائی نزدیکی انھیں ایک دوسرے کا ناگزیر ہمسایہ تو بناتی ہے مگر بداعتمادی، سیاسی اختلافات اور تاریخ کے زخم ان تعلقات کو کبھی مکمل اعتماد کی سطح پر نہیں آنے دیتے۔

1947 کی تقسیم ہند نے جنوبی ایشیا کو دو علیحدہ ریاستوں میں تقسیم تو کر دیا لیکن کئی ایسے مسائل نے جنم لیا جو آج بھی سلگ رہے ہیں۔ سب سے نمایاں مسئلہ کشمیر کا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود آج تک حل نہ ہو سکا۔ اسی تنازع نے دونوں ممالک کو چار مرتبہ جنگ کی طرف دھکیلا اور اب بھی یہ خطہ نہ صرف یہ کہ روایتی جنگ کے دہانے پر ہے بلکہ سائبر اور ایٹمی جنگ کا مرکز بھی بن سکتا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کے علاوہ پانی کی تقسیم، سیاچن گلیشیئر، سرحدی جھڑپیں، سرکریک کا مسئلہ، دہشت گردی کے الزامات اور سفارتی تعطل جیسے معاملات نے تعلقات کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس کشیدگی کے باعث دونوں ممالک کے بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہوتا ہے جب کہ تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبے پس پشت چلے جاتے ہیں۔

اکیسویں صدی میں قوموں کی ترقی کا دارومدار اقتصادی استحکام، سائنسی تحقیق، انسانی وسائل کی ترقی اور عالمی تعلقات پر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی ان تمام شعبوں کو متاثر کر رہی ہے۔ پاکستان کو غربت، مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

دوسری طرف بھارت کو غربت، کسانوں کی تحریک، مذہبی انتہاپسندی، اقلیتوں کے تحفظ اور سماجی عدم مساوات جیسے چیلنج درپیش ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک میں غربت اور بے روزگاری کی شرح تشویشناک حد تک بلند ہے۔ ایسے حالات میں جنگ یا دشمنی کا رویہ نہ صرف خطرناک ہے بلکہ خودکشی کے مترادف ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان اچھے ہمسائے کی طرح رہنے کا ممکنہ اور حقیقت پسندانہ حل موجود ہے لیکن اس طرف بڑھنے کے لیے پہلی شرط نیک نیتی سے باہمی مذاکرات ہیں۔ اس کے لیے پیشگی شرط یہ ہے کہ دونوں ممالک بامعنی اور غیرمشروط مذاکرات کا آغاز کرنے پر رضامند ہوں اور دل ودماغ سے یہ چاہیں کہ بداعتمادی کو ختم کیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ کسی بھی واقعے یا تنازعے کو مذاکرات کا خاتمہ نہ بنایا جائے بلکہ اسے گفت و شنید کا موقع سمجھا جائے۔

ایک جامع مذاکراتی فریم ورک کے تحت تمام تنازعات بشمول کشمیر، پانی اور تجارت کو زیربحث لانا ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کی بحالی اور فروغ نہ صرف معیشت کو سہارا دیں گے بلکہ سیاسی تعلقات میں بھی توازن پیدا کرنے کا سبب بنیں گے۔ پاکستانی اور بھارتی تاجر برادری ہمیشہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کی بحالی کی خواہشمند رہی ہے کیونکہ دونوں طرف کی منڈیاں ایک دوسرے کے لیے قدرتی شراکت دار ہیں۔

دونوں ملکوں کو ویزہ پالیسی اور عوامی رابطے میں نرم رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ طلبہ، اساتذہ، فنکاروں، صحافیوں اور مذہبی زائرین کے لیے آسان ویزہ پالیسی دونوں ملکوں کی عوام کو قریب لا سکتی ہے۔ یہ رابطے نفسیاتی خلیج کو پاٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سارے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں میڈیا کو بھی انتہائی ذمے دارانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

بدقسمتی سے دونوں ممالک کا مین اسٹریم اور سوشل میڈیا اکثر اشتعال انگیز بیانیے پھیلاتا ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ میڈیا ہاؤسز اور اینکرز کو قومی مفاد میں امن، مکالمہ اور حقیقت پر مبنی صحافت کی طرف مائل کریں۔ عوامی رائے عامہ کو متوازن بنانا دیرپا امن کے لیے ضروری ہے۔ سارک (SAARC) جیسے علاقائی پلیٹ فارمز کو فعال بنانا دونوں ممالک کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ پاکستان اور بھارت، دونوں ممالک کے اندر ایک مؤثر طبقہ موجود ہے جو دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی ’’بس ڈپلومیسی‘‘، منموہن سنگھ کا ’’کامن ویژن‘‘ اور نریندر مودی کی نواز شریف کی تقریب حلف برداری میں شرکت جیسے اقدامات اسی سوچ کے مظہر ہیں۔

اسی طرح پاکستان نے بھی کئی مواقع پر اسی مثبت جذبے کا اظہار کیا ہے۔ اگر جرمنی اور فرانس، امریکا اور ویتنام، چین اور جاپان جیسے ممالک ماضی کی خونریز جنگوں کے بعد نئے باب کا آغاز کر سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں؟ ہمیں جنگ کے بجائے تعلیم، تجارت اور تعاون کا انتخاب کرنا ہوگا۔

پاکستان اور بھارت کا مستقبل مشترکہ امن، ترقی اور احترام پر مبنی تعلقات میں پوشیدہ ہے۔ دشمنی کا تسلسل اب کسی کے مفاد میں نہیں۔ دونوں اقوام کو چاہیے کہ وہ ماضی کو تاریخ کا حصہ بنا کر ایک نئے، روشن اور پرامن مستقبل کی طرف قدم بڑھائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے