پاراچنار میں قیامِ امن کیلئے ایم ڈبلیو ایم کا کردار

n01208631-b.jpg

ضلع کرم کی سرزمین طویل عرصے سے فرقہ وارانہ کشیدگی، راستوں کی بندش اور سماجی انتشار کی لپیٹ میں رہی ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں خاص طور پر پاراچنار میں امن کے قیام کیلئے شیعہ تنظیموں، قائدین، علمائے کرام اور سیاسی و سماجی شخصیات کی جانب سے جس استقامت، حکمت اور بردباری کا مظاہرہ کیا گیا، وہ قابل تحسین ہے۔ اس حوالے سے یہاں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ضلع کرم میں قیام امن کیلئے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ ایم ڈبلیو ایم پاکستان کرم کی مقامی قیادت، گرینڈ جرگہ رکن شبیر حسین ساجدی، میئر پاراچنار مولانا مزمل حسین فصیح اور خاص طور پر چیئرمین ایم ڈبلیو ایم سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور رکنِ قومی اسمبلی انجینیئر حمید حسین طوری نے علاقہ میں پائیدار امن کی راہ ہموار کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ مجلس وحدت مسلمین کی مرکزی قیادت نے جہاں اسلام آباد اور دیگر شہروں میں کرم کے مسائل کو اجاگر کیا، وہیں مقامی قیادت نے میدانِ عمل میں عوام کی رہنمائی کی۔

میئر پاراچنار مولانا مزمل حسین فصیح نے مقامی نوجوانوں میں شعور پیدا کیا، خطرات سے خبردار کیا اور ہر اُس کوشش کی قیادت کی، جس سے امن کے امکانات روشن ہوسکتے تھے۔ اسی وجہ سے انہیں بے گناہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ پاراچنار کے معروف سماجی کارکن، صوبائی جنرل سیکرٹری اور گرینڈ جرگہ رکن شبیر حسین ساجدی نے نہ صرف عوامی پلیٹ فارمز پر پرامن تحریکوں کی حمایت کی، بلکہ دھرنوں، مذاکراتی جرگوں اور امن معاہدوں میں بھرپور حصہ لیا۔ ان کی نرم گفتاری، وسعتِ نظر اور غیر متزلزل جدوجہد نے ہر طبقے کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شبیر ساجدی نے مستقل طور پر اس بات پر زور دیا کہ امن صرف بندوق سے نہیں، بلکہ فہم، مکالمے اور انصاف سے آتا ہے۔ اسی طرح کرم سے منتخب رکن قومی اسمبلی ایم این اے انجینیئر حمید حسین طوری نے نہ صرف پارلیمنٹ کے فورم پر کرم کے مسائل کو اجاگر کیا، بلکہ عملی اقدامات بھی کیے۔ انہوں نے راستے کھلوانے، ترقیاتی فنڈز کی بحالی اور امن کے لیے حکومتی سطح پر دباؤ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے جرگہ سسٹم کو مضبوط کرنے اور وفاقی اداروں کو مذاکرات کی طرف لانے میں سفارتی کردار ادا کیا، جو ایک نیا رخ ثابت ہوا۔ پاراچنار میں ایم ڈبلیو ایم کے مقامی رہنماوں کی جانب سے شروع ہونے والے دھرنے نے ملک گیر دھرنوں کی شکل اختیار کی، جس سے حکومت مجبور ہوئی کہ امن جرگے قائم کرے اور مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے۔ ان دھرنوں کے نتیجے میں جو معاہدہ طے پایا، وہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ کرم کے مسئلہ پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے کردار پر روشنی ڈالی جائے تو اس حوالے سے ان کی خدمات ناقابل فراموش رہی ہیں۔ انہوں نے بحیثیت سینیٹر ایوان بالا میں ضلع کرم کا مقدمہ بہترین انداز میں پیش کیا، انہوں نے اس مسئلہ کو فرقہ وارانہ مسئلہ بنانے کی تمام تر کوششوں کا قلع قمع کیا۔ وہ انتہائی مخدوش حالات کے دوران سفیر امن بن کر ایک پارلیمانی وفد لیکر کرم پہنچے، انہوں نے بلاتفریق اہل تشیع کے ساتھ ساتھ مظلوم اہلسنت کے درد کو نہ صرف سنا بلکہ اسے محسوس کرتے ہوئے اپنے ہر قسمی تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

علاوہ ازیں ایک ملک گیر مذہبی و سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے ہر دستیاب فورم پر کرم کا مقدمہ پیش کیا۔ ایم ڈبلیو ایم سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز کی کوششوں سے گو کہ مسائل مکمل طور پر حل نہیں ہوئے، تاہم حالات میں قدرے بہتری ضرور آئی ہے، جس میں سرفہرست طے پانے والا امن معاہدہ ہے، اگرچہ اس معاہدے کی بعض شقوں پر مکمل عملدرآمد ابھی باقی ہے، تاہم شیعہ قیادت کی مسلسل کوششیں امید کی کرن ہیں۔ پاراچنار کے عوام اب ایک نئے شعور کے ساتھ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ اگر حکومت خلوصِ نیت سے ان معاہدوں پر عمل کرے تو وہ دن دور نہیں جب پاراچنار ایک پُرامن، خوشحال اور متحد شہر کے طور پر ابھرے۔ مجلس وحدت مسلمین کے چیئرمین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر انجینیئر حمید حسین طوری، تحصیل چیئرمین مولانا مزمل حسین، شبیر حسین ساجدی اور دیگر کی کرم میں قیام امن کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے