سمندر پر تسلط کا خاتمہ

IMG_20250524_000327_351.jpg

سابق سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اور دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر امریکہ کی بالادستی قائم ہو جانے کے بعد امریکی طیارہ بردار جہازوں نے مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں ملک کی فوجی طاقت کی علامت کے طور پر اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ تاہم حالیہ برسوں میں یمن میں اسلامی مزاحمت کی تحریک انصار اللہ جیسی نئی مزاحمتی قوتوں کے ظہور، میزائل اور ڈرون سسٹم کی اپ گریڈنگ اور اس میدان میں نئی ​​ٹیکنالوجی کے استعمال نے آنے والے عشروں میں ان بڑے جہازوں کی کارگردگی کے بارے میں سوالات کو جنم دیا ہے۔ وہ سوالات جو بحیرہ احمر میں ہونے والی حالیہ جھڑپوں اور سمندر میں تین ایف 18 طیاروں کے گرنے کے سکینڈل اور یمنیوں کو شکست دینے میں امریکی بحری بیڑے کی نااہلی کے بعد مزید نمایاں ہو گئے ہیں۔ 2025ء کے ابتدائی ہفتوں میں امریکی حکومت نے مشرق وسطیٰ میں طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس ہیری ٹرومین کے مشن کو بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ صیہونی رژیم کی حمایت میں یمن کی انصاراللہ تحریک سے محاذ آرائی کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اپریل 2025ء میں یمنیوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کو کروز میزائلوں اور خودکش ڈرونز سے نشانہ بنایا ہے۔  ایک ایسا دعویٰ جس نے ان بڑے جنگی بحری بیڑوں کی سکیورٹی کے بارے میں خدشات پیدا کر دیے۔ آخرکار خطے میں جنگی کشتوں کے ہمراہ دو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کی بیک وقت موجودگی بھی خطے کی سیاسی اور سیکورٹی مساواتوں کو تبدیل نہیں کر سکی۔ امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں پر انصاراللہ یمن کے حملے مقامی مزاحمتی قوتوں کی فوجی اور آپریشنل صلاحیتوں میں ایک بڑی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فضائی دفاعی نظام کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھنے والے ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے کروز میزائلوں اور جنگی ڈرونز کے استعمال نے یمنیوں کو خطے میں سب سے زیادہ طاقتور کھلاڑی بننے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ ان حملوں سے نہ صرف امریکہ کے بنیادی فوجی ڈھانچے کو خطرہ لاحق ہوا بلکہ طیارہ بردار بحری جہازوں کی دفاعی صلاحیتوں کے بارے میں موجود تصور بھی تبدیل ہو گیا۔ شائع شدہ رپورٹس کے مطابق یمنی مجاہدین فوجی شعبے میں ترقی کر کے جدید ترین میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ ترقی انسان کے ذہن میں مختلف سوال پیدا کرتی ہے: کیا امریکی طیارہ بردار جہاز اب بھی اتنے ہی موثر ہیں جتنے پہلے تھے اور کیا وہ متعدد خطرات جیسے بیک وقت حملوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟   اس بارے میں امریکی فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ: "دشمن کو نشانہ بنانے کی اپنی اعلیٰ طاقت کے باوجود یہ طیارہ بردار جہاز بڑے پیمانے پر ڈرون اور کروز میزائل حملوں کے سامنے کمزور ہیں۔” ان ماہرین کی تحقیق، جسے نیشنل انٹرسٹ میں بھی شائع کیا گیا، سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو درپیش سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک غیر متناسب ٹیکنالوجیز کا مقابلہ کرنے کی ان کی صلاحیت ہے۔ عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کی صلاحیتوں اور لچک دار راستوں پر اڑنے کی صلاحیت کے حامل جنگی ڈرون ان جہازوں کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ یہ مسئلہ خلیج فارس اور بحیرہ احمر جیسے علاقوں میں خاص طور پر اہم ہے جو ساحل کے قریب ہیں اور یہی مسئلہ انصاراللہ یمن فورسز کے مقابلے میں امریکی بحری بیڑوں کے لیے ایک سنگین چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ مزید برآں، کروز میزائلوں اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے متعدد بیک وقت اور مشترکہ حملے طیارہ بردار بحری جہاز کے دفاعی نظام میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ امریکی بحریہ کی اندرونی رپورٹس کے مطابق، رن وے یا ڈیک پر صرف ایک کامیاب حملہ ایک طیارہ بردار بحری جہاز کو ناکارہ سکتا ہے۔   امریکی اخبار نیشنل انٹرسٹ نے 2024 میں لکھا: "طیارہ بردار بحری جہاز تاریخ کے مہنگے ترین فوجی ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔ ان جہازوں نے دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ میں اپنی قابلیت ثابت کی تھی لیکن آج کی دنیا میں، زیادہ ترقی یافتہ خطرات کے ساتھ، ان کا دور ختم ہو سکتا ہے۔” 2025 میں مشرق وسطیٰ میں امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ایسے خطرات لاحق ہوئے جن کی مثال نہیں ملتی۔ دریں اثنا، امریکی بحریہ کے مستقبل کے حوالے سے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے، مہنگے جہاز اب ان کے لیے اتنے مفید نہیں رہے جتنے پہلے تھے۔ آخر میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا طیارہ بردار بحری جہاز اپنے بے پناہ اخراجات اور نئی کمزوریوں کے باوجود امریکی فوجی طاقت کی ریڑھ کی ہڈی بن کر رہ سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب نہ صرف امریکی بحریہ کے طیارہ بردار بحری جہازوں کی قسمت بلکہ دنیا میں امریکی خارجہ پالیسی اور عسکری طاقت کے مستقبل کو بھی متاثر کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے