کیا ٹرمپ اسرائیل سے اکتا چکا ہے؟

ان دنوں ہمارے کچھ دوست اس امکان پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تین خلیجی ریاستوں کے پانچ روزہ دورے میں اسلحہ کی فروخت اور امریکا میں سرمایہ کاری کے لیے ساڑھے تین ٹریلین ڈالر کے جو سمجھوتے کیے ہیں ان کے سبب اب خطے سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی میں ’’ سب سے پہلے اسرائیل ‘‘ کا اصول بدل گیا ہے۔
ہمارے دوست مشرقِ وسطی سے متعلق امریکی پالیسی میں بتدریج یو ٹرن کا اشارہ دینے کے لیے یہ دلیل استعمال کر رہے ہیں کہ ایک ڈونلڈ ٹرمپ وہ تھے جنھوں نے پہلی مدتِ صدارت کے دوران مشرقِ وسطی کے پہلے سرکاری دورے میں سب سے پہلے اسرائیل کو چنا اور وہاں تل ابیب سے یروشلم منتقل ہونے والے امریکی سفارت خانے کا افتتاح کیا اور گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا۔اس کے بعد ہی ٹرمپ صاحب سعودی عرب پہنچے۔
اور دوسری مدتِ صدارت شروع ہوتے ہی ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں جس پہلے مہمان کا استقبال کیا وہ بنجمن نیتن یاہو تھے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ٹرمپ اب تک کے تمام امریکی صدور میں اسرائیل کے دل کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔مگر پھر اچانک ٹرمپ کا نیتن یاہو سے دل اچاٹ ہوتا چلا گیا اور اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ ٹرمپ نے اس بار اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں اسرائیل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے سعودی عرب ، قطر اور متحدہ عرب امارات میں اترنا پسند کیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب معاشی مفاد امریکی خارجہ پالیسی کا تعین کرے گا نہ کہ خارجہ پالیسی معاشی ترجیحات طے کرے گی۔
ٹرمپ کے منقلب ہونے کے بارے میں مزید دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ انھوں نے ایک امریکی نژاد اسرائیلی فوجی کی رہائی کے لیے حماس سے بالا بالا سمجھوتہ کیا۔انھوں نے یمن کے ہوثیوں سے جنگ بندی کے عوض یقین دہانی حاصل کر لی کہ آیندہ امریکی جہازوں کو بحیرہ قلزم اور باب المندب سے گذرتے ہوئے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ٹرمپ انتظامیہ نے ہوثیوں سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ اسرائیل کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو ہفتے میں کسی امریکی جہاز کو نشانہ نہیں بنایا گیا جب کہ تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر اس عرصے میں دو بار میزائل گرے۔
یہی نہیں بلکہ اس وقت امریکا اور ایران کے مابین جوہری سمجھوتے کے بارے میں جو بات چیت ہو رہی ہے اس میں امریکا نے اسرائیل سے پیشگی مشاورت گوارا نہیں کی۔اس کے علاوہ ٹرمپ نے اسرائیل کے شدید تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے شام کے صدر احمد الشرع سے نہ صرف ریاض میں ملاقات کی بلکہ شام پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹانے کا اعلان بھی کر دیا اور اسرائیل منہ دیکھتا رہ گیا۔
تو یہ ہیں وہ نشانیاں جن سے ہمارے رجائیت پسند دانشوروں کو اندازہ ہوا کہ ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور اسرائیل رفتہ رفتہ امریکا کی ؟ ڈارلنگ فہرست ‘‘ سے نکالا جا رہا ہے۔
بارش کے بعد گھڑے پھوڑنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر بادل دیکھ کے گھڑے پھوڑنا کس قدر عاقبت اندیشی ہے۔اس کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
کیا یہ وہی امریکا نہیں جس کی ٹرومین انتظامیہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی قرار داد منظور کروانے کے لیے کمزور ممالک کی کلائی مروڑ کے اس قرار داد کے حق میں ووٹ ڈلوایا تھا۔یوں اسرائیل کی پیدائش ممکن ہوئی۔
اور پھر اسی امریکا کے صدر آئزن ہاور نے اکتوبر انیس سو چھپن میں مصر پر برطانیہ ، فرانس اور اسرائیل کے مشترکہ حملے پر شدید خفگی ظاہر کرتے ہوئے یہ جنگ فوری طور پر روکنے کے لیے دوٹوک موقف اختیار کیا۔اس کے بعد کینیڈی انتظامیہ نے اسرائیل اور فرانس کے درمیان جوہری تعاون پر مسلسل ناخوشی اور تحفظات ظاہر کیے۔تب بھی کچھ لوگوں کو امید ہو چلی تھی کہ امریکا اب اسرائیل کے معاملے میں غیر جانبدار رہے گا۔
مگر جون انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد امریکا نے مشرقِ وسطی میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے مستقل تحفظ کے لیے یہ طے کیا کہ اسرائیل علاقے میں عسکری اعتبار سے امریکا کا وفادار پولیس مین رہے گا اور عرب ممالک کو کسی بھی صورت میں فوجی اعتبار سے اسرائیل سے زیادہ طاقت ور نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اس کا پہلا ثبوت اکتوبر انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ میں ملا۔سوویت اسلحے سے لیس شام اور مصر کی افواج نے قلعہ بندیاں توڑ کے اسرائیل کو ابتدائی طور پر بھونچکا کر دیا تو وزیرِ اعظم گولڈا مائر نے نکسن انتظامیہ کو ایس او ایس بھیجا اور یہ پوشیدہ دھمکی بھی دی کہ اگر بروقت امداد نہیں پہنچی تو اسرائیل اپنی بقا کے لیے کوئی بھی انتہائی اقدام ( نیوکلیئر آپشن ) کر سکتا ہے۔
چنانچہ جنگ شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد جب اسرائیل تقریباً نڈھال ہو چکا تھا تب امریکی فضائیہ نے ’’ آپریشن نکل گراس ‘‘ شروع کیا اور ہر ایک گھنٹے بعد اسلحے سے لدا طیارہ اسرائیل میں اترنے لگا۔جب تیس اکتوبر کو باقاعدہ جنگ بندی ہوئی تو امریکا اسرائیل کو اس سے دوگنا اسلحہ پہنچا چکا تھا جتنا جنگ میں تباہ ہوا تھا۔
وہ دن اور آج کا دن امریکا میں کوئی بھی انتظامیہ کانگریس کے اسرائیل نواز قلعے میں شگاف نہیں ڈال سکی۔اقوامِ متحدہ میں امریکا اسرائیل کی غیر مشروط ڈھال بن گیا۔
عربوں میں صرف مصر کو اتنی رعائیت دی گئی کہ اگر وہ امریکی کیمپ کا حصہ بن جائے اور اسرائیل کے خلاف آیندہ کسی بھی مہم جوئی سے باز رہے تو اسے نہ صرف اسرائیل کے مساوی سالانہ اقتصادی امداد ملے گی بلکہ مقبوضہ جزیرہ نما سینائی بھی واپس کر دیا جائے گا۔
شام چونکہ اس دام میں نہیں آیا لہٰذا اسے گولان کی پہاڑیوں سے مستقل ہاتھ دھونا پڑا۔اردن کسی گنتی شمار میں کبھی بھی نہیں تھا اور لبنان تو ہمیشہ غریب کی جورو سب کی بھابھی بنا رہا۔فلسطینیوں کو کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو سمجھوتے کے جال میں پھنسا کر انھیں دو ریاستی حل کا لالی پاپ دے کر فلسطینی اتھارٹی نامی ایک ڈھانچہ تھما دیا گیا جسے اب فلسطینی بھی اسرائیل کی بی ٹیم سمجھتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اوباما کے دونوں ادوار میں اسرائیل اور امریکا کے تعلقات میں قدرے ’’ سرد مہری ‘‘ دیکھنے میں آئی۔نیتن یاہو اور اوباما میں بات چیت بند رہی۔مگر یہ کیسی سرد مہری تھی جس کے ہوتے اسرائیل کی فوجی امداد کے جتنے سمجھوتے اوباما دور میں منظور ہوئے ان کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
جو دانشور ٹرمپ کی ’’ کایا کلپ ‘‘ اور اسرائیل سے اکتاہٹ محسوس کر رہے ہیں کیا وہ بتا سکیں گے کہ خلیج کے پانچ روزہ دورے میں ٹرمپ نے ہر مدعے پر بات کی مگر غزہ کے بارے میں ایک بھی واضح جملہ منہ سے نہ نکلا سوائے اس کے کہ وہاں جو ہو رہا ہے افسوس ناک ہے اور ہم غزہ کو ایک ساحلی جنت دیکھنا چاہتے ہیں ( یعنی ٹرمپ اپنے اس اوریجنل خیال پر قائم ہیں کہ غزہ کو خالی کروا کے اسے ’’ جنت ‘‘ بنایا جائے )۔
کیا میزبانوں میں سے کسی نے ٹریلین ڈالرز کے سمجھوتوں کو غزہ میں جنگ بندی سے مشروط کرنے کی کوشش کی ؟ ٹرمپ کا طیارہ ایرفورس ون فضا میں بلند ہوتے ہی اسرائیل نے غزہ پر مستقل فوجی قبضے کا اعلان کرتے ہوئے اس پر زمین ، فضا اور سمندر سے قیامت برسا دی۔
تب سے اب تک وائٹ ہاؤس پر ایک معنی خیز خاموشی طاری ہے۔مگر آپ یہی سوچ کے خوش رہئیے کہ ٹرمپ نے مشرقِ وسطی کے دورے میں روائیت کے برعکس اسرائیل کو نظرانداز کر کے گویا ہتھنی کی پشت پر بھالا مار دیا۔