اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد "آپریشن سندور” پر تبصرہ کرنے پر گرفتار

بھارتی ریاست ہریانہ کی پولیس نے اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر علی خان محمود آباد کو "آپریشن سندور” سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹ کرنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا ہے۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ ڈاکٹر علی خان محمود آباد کو آج ہریانہ پولیس نے آپریشن سندور سے متعلق ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے لئے گرفتار کیا۔ یہ گرفتاری خواتین کمیشن کی جانب سے چار روز قبل بھیجے گئے سمن کے بعد عمل میں لائی گئی۔
محمود آباد پر انڈین پینل کوڈ (بی این ایس) کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے، مسلح بغاوت کو بھڑکانے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے متعلق ہیں۔ 8 مئی کو ایک پوسٹ میں پروفیسر محمود آباد نے سوال اٹھایا تھا کہ کچھ ہندوتوا کے حامی فوج میں خدمات انجام دینے والی مسلم خاتون افسر کرنل صوفیہ قریشی کی تعریف کیسے کر سکتے ہیں جبکہ وہی لوگ ملک میں ہو رہے ہجومی تشدد، بلڈوزر کارروائیوں اور اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش ہیں۔ انہوں نے لکھا تھا "پریس بریفنگ کی آپٹکس اہم ہیں، لیکن اگر زمین پر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو یہ محض ایک دھوکہ ہے”۔
ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے اس تبصرہ کو خواتین فوجی افسران کی توہین قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کا مقصد فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا ہے۔ ڈاکٹر محمود آباد نے اپنی وضاحت میں کہا کہ ان کے بیان کو بالکل غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اس میں خواتین مخالف کوئی بات نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرے تمام تبصرے شہریوں اور فوجیوں کے تحفظ کی ضرورت پر مرکوز تھے۔ اشوکا یونیورسٹی نے وضاحت کی ہے کہ محمود آباد کی رائے یونیورسٹی کی سرکاری رائے نہیں ہے اور وہ اس معاملے پر معلومات یکجا کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ پولیس اور مقامی حکام کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔