چینی صدر کے امریکہ پر سخت تنقید

⚫️ لاطینی امریکہ اور کیریبین کے رہنما اور اعلیٰ حکام چین-لاطینی امریکہ و کیریبین ممالک کی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بیجنگ پہنچے ہیں۔ چین نے حالیہ برسوں میں ان خطوں کے ساتھ اپنی اقتصادی و سیاسی تعاون میں اضافہ کیا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ تجارتی محصولات کے مقابلے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
⚫️ لاطینی امریکہ، چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی و سیاسی کشمکش کا ایک مرکزی میدان بن چکا ہے اور واشنگٹن ان ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ کسی ایک فریق کا انتخاب کریں۔
⚫️ چینی صدر شی جن پنگ نے منگل کو اجلاس کے افتتاحی خطاب میں چین اور لاطینی امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی تعریف کرتے ہوئے ان روابط کو ایک "بڑا اور تناور درخت” قرار دیا۔
⚫️ انہوں نے کہا کہ "اگرچہ چین اور لاطینی امریکہ جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے دور ہیں، لیکن دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات کی طویل تاریخ ہے۔”
⚫️ صدر شی نے اس خطے کی ترقی کے لیے 9.2 ارب ڈالر کے قرضوں کی فراہمی کا اعلان کیا اور کہا کہ: "صرف اتحاد اور تعاون کے ذریعے ہی اقوام عالمی امن و استحکام کا تحفظ کر سکتی ہیں اور ترقی و خوشحالی کو فروغ دے سکتی ہیں۔”
⚫️ انہوں نے "بلاک وار” یعنی گروہی تصادم کے خطرات سے بھی خبردار کیا۔
چینی صدر کی تقریر ایسے وقت میں ہوئی جب چین اور امریکہ نے تجارتی جنگ میں نرمی کا اعلان کیا
چینی صدر شی جن پنگ کی یہ باتیں اُس روز کے بعد سامنے آئیں، جب چین اور امریکہ نے باہمی رضامندی سے 90 دن کے لیے انتقامی محصولات میں نمایاں کمی پر اتفاق کیا۔ اس معاہدے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "مکمل ری سیٹ” یعنی ازسرنو ترتیب دینا قرار دیا تھا۔
اس سمجھوتے کے تحت، امریکہ نے چینی مصنوعات پر عائد محصولات کو 30 فیصد تک کم کرنے پر آمادگی ظاہر کی جبکہ چین نے بھی اپنی طرف سے محصولات کو 10 فیصد تک لانے کا وعدہ کیا۔ یہ اقدام دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے مابین طویل اور سخت تجارتی جنگ کے خاتمے کی طرف ایک اہم پیشرفت سمجھا جا رہا ہے، جس نے عالمی منڈیوں کو غیر یقینی اور اضطراب کا شکار کر رکھا تھا۔
شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں تجارتی کشمکش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "تجارتی یا محصولات کی جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔” انہوں نے زور دے کر کہا کہ "زبردستی اور بالادستی صرف خودساختہ تنہائی کو جنم دیتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "دنیا اس وقت گزشتہ ایک صدی کی سب سے تیز رفتار اور بےمثال تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، جہاں کئی خطرات آپس میں جُڑے اور پیچیدہ ہو چکے ہیں۔”
اجلاس میں شرکت کرنے والے اہم رہنماؤں میں برازیل کے صدر لوئیس ایناسیو لولا داسیلوا شامل ہیں، جو پانچ روزہ سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچے ہیں۔ کولمبیا کے صدر گوستاوو پترو بھی اس اجلاس میں شریک ہیں اور انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس موقع پر چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو” (کمربند و راه) میں شامل ہونے کے معاہدے پر دستخط کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ لاطینی امریکہ کے دو تہائی ممالک پہلے ہی چین کے اس کثیر ٹریلین ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے میں شامل ہو چکے ہیں، اور چین اب امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر برازیل، پیرو اور چلی جیسے ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بن چکا ہے۔
صدر گوستاوو پترو نے اپنی تقریر میں "تمدنوں کے درمیان مکالمے” کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا:
"ایک افقی (برابری پر مبنی) مکالمہ — نہ کہ عمودی (بالادست) — جو آمریت، سامراج اور تمدنی سودے بازی سے پاک ہو، ہماری علاقائی فلاح کے لیے ضروری ہے۔”