n01208568-b.jpg

حال ہی میں فلسطین میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس اور امریکی حکومت کے درمیان عارضی جنگ بندی کا براہ راست معاہدہ طے پا گیا ہے۔ امریکہ نے حماس کو ایک امریکی نژاد اسرائیلی فوجی کی آزادی کے بدلے عارضی جنگ بندی کی پیشکش کی تھی جسے حماس نے قبول کر لیا تھا۔ اتوار کے روز حماس نے اس امریکی نژاد اسرائیلی فوجی جس کا نام عیدان الیگزینڈر بتایا جاتا ہے کو آزاد کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی جس کے فوراً بعد امریکہ کے خصوص ایلچی ویٹکوف نے حماس کے نمائندوں سے مذاکرات کیے اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا۔ یاد رہے یہ اسرائیلی فوجی 7 اکتوبر 2023ء کے دن طوفان الاقصی آپریشن کے دوران حماس کے ہاتھوں یرغمالی بنا لیا گیا تھا۔ حماس نے اس جنگ بندی معاہدے کے تحت کل ہی عیدان الیگزینڈر کو امریکہ کے حوالے کر دیا ہے۔

امریکہ اور حماس کے درمیان یہ معاہدہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی مکمل لاعلمی کی حالت میں انجام پایا ہے۔ اتوار کے دن جب سب کچھ طے پا چکا تھا تب ہی تل ابیب کو اس معاہدے کی اطلاع دی گئی تھی اور حتی امریکی حکومت اور حماس کے درمیان جاری مذاکرات کے بارے میں بھی اسے کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ اسرائیل کو ان مذاکرات سے بے دخل رکھنا ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں نئی امریکی حکومت اور بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں صیہونی کابینہ کے درمیان گہری خلیج اور اختلافات کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بارے میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک باخبر ذریعے کے بقول اعلان کیا ہے کہ مغربی ایشیا کے لیے وائٹ ہاوس کے خصوصی نمائندے اسٹیو ویٹکوف نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی منصوبے سے آگاہ کیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ نے اس خصوصی منصوبے کو تل ابیب کے لیے آخری موقع قرار دیا ہے۔ اس بارے میں حماس کے سیکرٹری جنرل خلیل الحیہ نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے: "امریکی نژاد اسرائیلی فوجی کو آزاد کرنے کا فیصلہ امریکی حکام سے مذاکرات کے بعد انجام پایا ہے۔” انہوں نے مزید کہا: "یہ مذاکرات عارضی جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کی خاطر انجام پائے تھے۔” اسی طرح صیہونی ٹی وی کے چینل 12 نے امریکی حکومت اور حماس کے درمیان اس معاہدے کے بارے میں اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے امریکی صدر نے بنجمن نیتن یاہو کو زوردار طمانچہ دے مارا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت میں اب تک کل 52 ہزار 800 فلسطینی شہید جبکہ 1 لاکھ 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔

صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی جنگی کابینہ کے ہمراہ حماس سے مذاکرات روک کر غزہ میں فوجی کاروائی کا دائرہ مزید بڑھا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چند ہفتے پہلے اسرائیل اور حماس کے درمیان 60 روزہ عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا جس میں حماس نے 146 اسرائیلی فوجیوں کو آزاد کیا تھا۔ مختلف ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس اس وقت بھی تقریباً 59 اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 24 زندہ حالت میں ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں دعوی کیا تھا کہ غزہ میں 21 اسرائیلی یرغمالی زندہ ہیں جس کے بعد یرغمالیوں کے اہلخانہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اپوزیشن اور رائے عامہ کے شدید دباو اور مخالفت کے باوجود صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو غزہ میں فوجی کاروائی جاری رکھنے پر مصر ہے اور حماس سے مستقل جنگ بندی کرنے سے انکاری ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ سیاست سمجھنے کے لیے اس کی شخصیت کا گہرائی میں جائزہ لینا ضروری ہے۔ وہ نیویارک کا تاجر ہے اور اب امریکہ کا 47 واں صدر بن گیا ہے۔ اس نے سالہا سال جوا خانے چلائے ہیں اور اس مافیائی صنعت میں اپنے رقیبوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بھی کیا ہے۔ مافیائی دنیا کا پہلا قانون یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو غیر ضروری شدت پسندی سے پرہیز کیا جائے تاکہ گروہوں کے بڑے مفادات محفوظ رہ سکیں۔ مغربی ایشیا میں غاصب صیہونی رژیم کی تسلط پسندانہ پالیسیاں ٹھیک اس اصول سے متضاد ہیں اور اس سے ٹکراتی دکھائی دیتی ہیں۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ سیاست سے بھی ٹکرا رہی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ مغربی ایشیا خطے میں خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کا منصوبہ جلد از جلد تکمیل کرنے کے درپے ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ بحیرہ عرب سے لے کر بحیرہ روم تک ایک سیکورٹی اقتصادی بلاک تشکیل کرنا چاہتا ہے اور اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ مقصد اسرائیل کی یکہ تازیوں اور تسلط پسندی کے ساتھ حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ اسلامی ممالک کسی صورت میں بھی فلسطین کاز سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہیں۔ مسئلہ فلسطین خاص طور پر طوفان الاقصی آپریشن کے بعد عالمی سطح پر اور اسلامی دنیا میں انتہائی درجہ اہمیت اختیار کر چکا ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ نے اٹلی کے ڈانز کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حماس سے براہ راست مذاکرات انجام دے کر نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ وہ غلط راستے پر گامزن ہے اور اس سے پہلے کہ صورتحال بے قابو ہو جائے عقلمندی کا راستہ اختیار کرے۔ امریکی ایلچی اسٹیو ویٹکوف نئے منصوبے کے ساتھ تل ابیب گیا ہے جس کا مرکزی خیال خطے میں خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل پر استوار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے