n01207710-b.jpg

رسول خدا (ص) اور آئمہ ھدیٰ (ع) کے فرامین کی روشنی میں اسلام دشمنوں کے خلاف ”جہاد“ میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ”صالح قیادت“ کا ہونا اشد ضروری ہے۔ صدر اسلام سے لے کر آج تک ظالمانہ اور کافرانہ طاقتوں کے خلاف جو جنگیں لڑی گئیں، ان میں امیر لشکر کا اہم کردار تھا۔ جہاں بھی قیادت میں ذرا اخلاقی ضعف تھا، وہاں مسلمانوں کے لشکر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگ خیبر میں لشکر اسلام کے بار بار اور پے در پے حملوں کے باوجود قلعہ خیبر فتح نہیں ہو پا رہا تھا، لیکن بالآخر مسلمانوں کو فتح تب نصیب ہوئی، جب علم اس کے ہاتھ میں آیا ”جو خدا کو دوست رکھتا تھا اور خدا اسے دوست رکھتا تھا“۔ فی زمانہ بھی جب ہم آج کے سب سے بڑے طاغوت امریکا اور غاصب اسرائیل کے خلاف مسلمانوں کی لڑی جانے والی جنگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں  کہ ان جنگوں میں مسلم افواج کی شکست کا بڑا سبب مسلمانوں کی غیر صالح قیادت تھی۔ اس ضمن میں درج ذیل کچھ مثالیں زیر غور ہیں:

1) طالبان کی پہلی حکومت کو ختم کرنے کیلئے جب امریکا اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا تو طالبان کے امیرالمومنین ملا عمر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ”دنیا دیکھے گی کہ خدا ہماری کس طرح مدد کرتا ہے“، لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ خدا کی مدد طالبان کے شامل حال نہ ہوئی اور طالبان کا دفاع ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ طالبان مزار شریف سے پسپا ہو کر کابل آئے اور پھر کابل میں بغیر مقابلہ کیے قندھار کی طرف فرار ہو گئے اور پھر وہاں دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے اور اس کے بعد جو کچھ ان کے ساتھ ہوا، وہ ایک الگ داستان ہے۔

2) عراق کا صدر صدام حسین جو خود کو ”قادسیہ کا ہیرو“ کہتا تھا، اس کے تمام دعوؤں کے برعکس اس کی فوج امریکا کے سامنے ڈھیر ہو گئی اور وہ خود تلاش بسیار کے بعد ایک گٹر سے برآمد ہوا۔ حالانکہ عراقی عوام کو امید تھی کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی، ان ایام میں عراق کے صحراؤں میں اٹھنے والا ریت کا طوفان امریکی جارحین کی آنکھوں کو اندھا اور ان کے اسلحے کو ناکارہ کر دے گا، لیکن پھر ہوا یہ کہ وہ طوفان جو ہر سال انہی دنوں میں اٹھتا تھا معمول سے ہٹ کر کہیں ریت کے بستر پر سویا رہا، جبکہ اس کے مقابلے میں امریکا نے 1980ء کے جن ایام میں ایران پر حملہ کرنا چاہا، ان ایام سے متعلق اپنے محکمہ موسمیات سے رپورٹ چاہی۔ رپورٹ کے مطابق امریکا ایران کے جس صحرا میں اپنے طیارے اتارنا چاہتا تھا اس صحرا میں ان دنوں کبھی کوئی طوفان نہیں آیا تھا، لیکن جب منصوبے کے مطابق امریکی طیاروں نے ایران کے ”طبس“ کے صحرا میں اترنے کی کوشش کی، تو عین اس وقت  غیر متوقع طور پر ایک ایسا طوفان اٹھا، جس کی وجہ سے امریکی طیارے آپس میں ہی ایک دوسرے سے ٹکرا کر سرنگوں ہوگئے۔

3) عربوں کی تمام قیادتوں نے باہم مل کر اسرائیل سے کئی جنگیں لڑیں لیکن ہر بار شکست کھائی۔ اس کے بعد فلسطین کی سیکولر قیادت یاسر عرفات نے فلسطینی جنگجوؤں کی قیادت سنبھالی اور ایک عرصے کی جدوجہد کے بعد ناکام ہو کر اپنے ہاتھ میں اٹھایا ہوا اسلحہ پھینک کر اس کی جگہ ”زیتون کی شاخ“ اٹھا لی اور اسرائیل سے ذلت آمیز ”اوسلو امن معاہدہ“ کر لیا، لیکن انہی فلسطینی عوام کی قیادت جب ایک دینی جماعت ”حماس“ کے ہاتھوں میں آئی، تو اس نے انہی مظلوم فلسطینوں کے ہاتھوں ”طوفان اقصیٰ“ برپا کرکے اسرائیل کی سلامتی پر سرخ نشان لگا دیا۔ اسی طرح ”حزب اللہ“ کی مومن اور صالح قیادت کے تحت اسرائیل سے لڑی جانے والی جنگ میں اسرائیل کو اپنی زندگی کی پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور لبنان چھوڑنا پڑا۔

4) شام کا صدر بشارالاسد بھی ایک سیکولر حکمران تھا اور ایک لادین پارٹی (بعث پارٹی) کا سربراہ تھا اور بالآخر اسرائیل اور امریکا کی زیرسرپرستی لڑنے والے تکفیری دہشتگردوں کے ایک ہی حملے میں چاروں شانے چت ہو گیا۔

5) 71ء کی جنگ میں ہماری پاک فوج کو بھی جس طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑا، اس کی ایک وجہ اس کی ”شارب الخمر“ قیادت تھی۔ امام عالی مقام (ع) کو جب یزید کی بیعت کیلئے کہا گیا، تو آپؑ نے فرمایا ”میں اس کی بیعت کیسے کروں جو شارب الخمر (زیادہ شراب پینے والا) ہے اور کتوں سے کھیلتا ہے“۔ آج ہمارا مقابلہ دنیا کے نقشے پر دیکھی جانے والی واحد بت پرست قوم سے ہے۔ اس کے خلاف بھی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے حکمران اپنے گریبانوں میں جھانکیں، اپنی اصلاح کریں اور استغفار پڑھیں۔ آخر ”خدائے بخشندہء مھربان“ نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے سر پر کھڑے عذاب کو ٹال دیا تھا اور جناب حرؑ کو یزید ملعون کے لشکر سے نکال کر ہدایت کے رستے پر ڈال دیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے