2644379-ShirinHyderNew-1716699273-600x450.webp

’’ ابھی تک جنگ کے لیے نئے کپڑے بھی نہیں بنوائے اور جنگ چھڑنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے -‘‘

’’ انڈیا والوں کو بتاؤ کہ ہم اپنی ذات سے باہر جنگ نہیں کرتے -‘‘

’’ان کو یہ بھی بتائیں کہ ہماری لائیٹ بھی کافی گھنٹوں سے بند ہے ، اس لیے ہم کپڑے بھی استری نہیں کر سکتے اس لیے ابھی جنگ شروع نہ کریں -‘‘

’’ان کو کوئی بتائے کہ دن کو کافی گرمی ہوتی ہے، رات کو جنگ کر لیں -‘‘…’’ان سے کہیں کہ ایک گھنٹے کے لیے ہمارا پانی کھول دے تا کہ ہم نہا دھو کر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں-‘‘

’’ پتا نہیں ہمیں اسٹیج بنوا لینا چاہیے کہ ان کل فلاں اداکارہ ہمارے سامنے اسٹیج پر ناچے گی-‘‘

’’ اس کو تو چھوڑو، ان کی فلاں اداکارہ کا ڈانس تو دیکھنا بنتا ہے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ -‘‘

’’جنگ کا ایک فائدہ اور بھی تو ہے کہ جو بھی ہمارا بارڈر کراس کر کے آئے گا اس کا فون نان پی ٹی اے ہو جائے گا- ‘‘

’’ اگر تو ان کا مقصد پانی بند کر کے ہمیں جنگ کی دھمکی سے ڈرانے کاہے تو انھیں چاہیے کہ وہ بجائے پانی بندکرنے کے ہمارا انٹر نیٹ بند کرنے کی دھمکی دے دیں، پھر دیکھنا ہما را سانس لینا بھی دشوار ہو جائے گا، ہم جنگ کے بغیر ہی مر جائیں گے-‘‘

’’ پانی کی ٹنکی اوور فلو کر رہی ہے، انڈیا کو بتائیں ، بے شک ہمارا پانی بند کردے-‘‘

’’پتا نہیں ہمارا اتنا پانی بند کر کے انھوں نے کرنا کیا ہے، پیتے تو وہ کچھ اور ہی ہیں-‘‘

’’اگر انھوں نے ہم پر حملہ کیا اور ہمارے کسی علاقے پر قبضہ کر لیا تو ہم ان کا حال بھی اپنے جیسا کر لیں گے، یعنی کہ ان کا بھی بیڑہ غرق کردیں گے-‘‘

’’بڑے ہی بے وقوف ہیں انڈیا والے، اتنی گرمی میں تو لوگ کسی شادی کی تاریخ رکھتے ہوئے بھی کئی بار سوچتے ہیں اور انڈیا نے جنگ رکھ لی ہے-‘‘

’’جنگ کے بعد انڈین قیدیوں کو سزا کے طور پا فلاں پاکستانی گلوکار کے نغمے سنوائے جائیں گے-‘‘

’’پھوپھو، جنگ کا کوئی کارڈ نہیں ہوتا اور نہ ہی ہم آپ کو بھولے ہیں، اگر جنگ کا کوئی کارڈ ہوتا تو اس پر سب سے اوپر آپ کا نام ہی لکھنا بنتا تھا -‘‘

’’ جنگ کی نہیں بلکہ جنگ کے بعد بجلی کے بلوں میں جنگ ایڈجسٹمنٹ چارجز کی زیادہ فکر ہے-‘‘

مندرجہ بالا فقرے آج کل سوشل میڈیا پر چلنے والی کچھ ریلوں سے ہیں، انھیں ہمارے بچے میم ز بھی کہتے ہیں، انگریزی میں اس کے لیے Gossip کالفظ استعمال ہوتا ہے اور اردو میں فضول گوئی- سب سے دلچسپ لفظ اس کے لیے پنجابی زبان کا ہے جو اس قدر بعینہ صورت حال ہے کہ کوئی اور لفظ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا – ایسی چیزوں کو ہماری پنجابی زبان میں ’’ کھچ‘‘ کہا جاتا ہے ، جمع جس کی ’’ کھچاں ‘‘ ہوتا ہے ، اس لفظ سے بہتر کوئی اور لفظ کسی زبان میں ایسی فضول گوئی اور gossip کے لیے نہیں ہو سکتا ہے – یہ فقرے اور ایسے میم صرف وہی لوگ بنا سکتے ہیں جو زندگی کو پھولوں کی سیج اور مسائل کو فقط ایک لطیفہ سمجھتے ہیں-

جنھیں ’’ جنگ ‘‘ کا مطلب ، ’’مزاحیہ ڈراما ‘‘ لگتا ہے- انھیں علم ہی نہیں کہ جنگ چیز کیا ہے، کیسی قیامت ہے اور کتنا بڑا عفریت ہے- انھیں یاد نہیں یا وہ جانتے ہی نہیں کہ جنگوں میں کیا تباہیاں ہوتی ہیں اور ان کا خمیازہ کن کن ملکوں کو اور قوموں کو کتنے عرصے کے لیے بھگتنا پڑتا ہے- ہم بھول گئے ہیں کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے دنیا کو کس تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا تھا اور کیا انھیں اندازہ ہے کہ تیسری جنگ عظیم کا کیا مطلب ہو گا، دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جانے سے وہ شہر تو خاک ہوئے ہی مگر اس کے بعد بھی کئی نسلوں تک وہاں پیدا ہونے والے بچے بھی اس خوفناک ریڈیائی لہروں کے اثرات کا شکار رہے-

وہ قومیں جنگ کے اثرات سے تباہ ہو کر بھی یوں سنبھلیں کہ ترقی کی دوڑ میں کئی ترقی یافتہ ملکوں کو پیچھے چھوڑ گئیں – ہم ان قوموں کے پاسنگ بھی نہیں ہیں، ہم تو ایک تباہ کن بارش یا آندھی کے بعد بھی کئی دن تک سڑکوں اور گلیوں میں کھڑے پانی کو نہیں نکال پاتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے