دنیا کی صلیب پر لٹکی ہوئی انسانیت

اس وقت اگر ہم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں تو ہر خطہ چیخ رہا ہے، ہر براعظم میں کوئی نہ کوئی آتش فشاں پھٹ رہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین کی سرزمین خون سے تر ہے۔ غزہ کی گلیوں میں وہ چیخیں گونجتی ہیں جنھیں سننے کے لیے اقوام متحدہ کے کان بہرے ہو چکے ہیں۔ بچوں کی لاشیں تباہ شدہ اسکول بمباری سے ملبہ ہوئے گھر اور پانی کے لیے ترستی بستیاں یہ سب آج کے مہذب دور میں ہو رہا ہے۔
امریکا جو کبھی دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار بننے کا دعویٰ کرتا تھا، وہ آج اسرائیل کو ہتھیار مہیا کر کے اس نسل کشی کا حصہ بن چکا ہے۔ کانگریس میں اگر کوئی سیز فائرکا لفظ بول دے تو وہ غدار قرار پاتا ہے۔ عالمی میڈیا جو کبھی سچ کی تلاش میں ہراول دستہ کا کام کیا کرتا تھا وہ اب طاقتوروں کی زبان بولتا ہے۔ بی بی سی اور سی این این کی اسکرینوں پر بمباری کے مناظر کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی ویڈیو گیم ہو۔ گویا انسانی زندگی ایک تماشہ بن چکی ہے۔
یوکرین اور روس کی جنگ نے یورپ کو اقتصادی طور پر جھنجھوڑ دیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان دونوں ممالک کی جنگ میں بھی سچ صرف طاقتور کے منہ سے نکلتا ہے۔ نیٹوکا کردار متنازع ہے اور روس کا رویہ جارحانہ۔ دونوں اطراف انسانی جانوں کی کوئی وقعت نہیں۔ ہزاروں نوجوان جو صرف اپنی سرزمین سے محبت کرتے تھے توپوں کی خوراک بن گئے، لیکن عالمی طاقتوں کا ضمیر سکون سے سو رہا ہے کیونکہ ان کی معیشتیں جنگوں سے ہی تو پروان چڑھتی ہیں۔
افریقہ کے کئی ممالک میں فوجی بغاوتوں کی نئی لہر آئی ہے۔ مالی نائجر اور چاڈ جیسے ممالک ایک بار پھر بندوقوں کے رحم و کرم پر آ گئے ہیں۔ جمہوریت کا خواب ایک بار پھر دور ہوتا جا رہا ہے۔ اقوامِ عالم کو ان مظلوم خطوں کے عوام کی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہاں تیل یا گیس کے ذخائر نہیں نہ ہی وہ مارکیٹس ہیں جہاں بڑی طاقتیں اپنی مصنوعات بیچ سکیں۔ اس لیے ان کی اذیتیں کسی کو نظر نہیں آتیں نہ ہی کوئی ان پر رپورٹنگ کرتا ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان معاشی سرد جنگ تیز ہو چکی ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں یہ دو طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے آ چکی ہیں۔ تائیوان کو لے کر جو کشیدگی بڑھ رہی ہے، اس سے خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ لیکن اس تمام جھگڑے میں سب سے زیادہ متاثر وہ عام لوگ ہوں گے جن کا نہ تائیوان کے آئینی موقف سے کوئی لینا دینا ہے نہ ہی وہ ون چائنا پالیسی کے پیچیدہ مباحث سے واقف ہیں۔ وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ جنگ کا مطلب موت ہے، بھوک ہے، بے گھر ہونا ہے۔
اسی دوران برطانیہ میں اسلاموفوبیا نے نئی شکل اختیارکی ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں انسان کے بنیادی حقوق کو آئینی تحفظ حاصل ہے، آج مسلمانوں کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر نفرت کا سامنا ہے۔ یورپ میں مہاجرین کے خلاف جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔ سمندروں میں ڈوبتے ہوئے وہ لوگ جو صرف ایک محفوظ زندگی چاہتے ہیں، ان کے لیے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ انسانی ہمدردی اب پاسپورٹ اور ویزے کی محتاج ہو چکی ہے۔
اور ہندوستان جسے کبھی جمہوریت کی سب سے بڑی تجربہ گاہ کہا جاتا تھا، وہاں آج مسلمانوں کے ساتھ سلوک کسی بھی مہذب سماج کے لیے شرم کا باعث ہونا چاہیے۔ ایک ملک جوگاندھی نہرو اور امبیڈکرکی تعلیمات پر فخرکرتا تھا، آج ہندوتوا کے پرچم تلے اقلیتوں کو دیوار سے لگا رہا ہے۔ عدالتیں خاموش، میڈیا، اندھا اور عوامی ضمیر بے حس ہو چکا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے لاپتا ہونے کی خبریں اب کسی اخبار کی شہ سرخی نہیں بنتیں۔ گویا ظلم معمول بن چکا ہے اور معمول ہی سب سے بڑا جرم ہوتا ہے۔
یہ کیسی دنیا ہے جہاں جمہوریت صرف اس وقت اچھی لگتی ہے جب وہ ہماری ترجیحات کے مطابق ہو؟ انسانی حقوق صرف وہی ہوتے ہیں جن سے ہماری تجارت کو فائدہ ہو؟ کیا اقوام متحدہ واقعی اقوام کی نمایندہ ہے یا صرف طاقتوروں کا کلب بن چکی ہے؟ کیا عالمی عدالتِ انصاف واقعی انصاف کا ادارہ ہے یا صرف ان مقدمات کو سنتی ہے جو مغرب کی مرضی کے مطابق ہوں؟
ان تمام سوالوں کے درمیان اگرکوئی چیز باقی ہے تو وہ عام انسان کی ہمت اس کی مزاحمت اور اس کی امید ہے۔ فلسطین کی ماں جب ملبے میں دبے بچے کو اٹھاتی ہے اورکہتی ہے ہم ہارے نہیں تو وہ پوری انسانیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ یوکرین کا وہ رضاکار جو زخموں سے چور ہو کر بھی اسپتال میں بچوں کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے وہ اس دنیا کی آخری کرن ہے۔ ایرانی لڑکیاں جو کتابوں کو سینے سے لگائے سڑکوں پر نکلتی ہیں وہ آنے والے وقت کی نوید ہیں۔
اس وقت ہمیں صرف مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، بغیر اس کے مذہب رنگ نسل قومیت یا ریاستی شناخت کو دیکھتے ہوئے۔ ہمیں اپنی ہمدردی کو عالمی بنانا ہو گا کیونکہ آج جو ظلم کسی اور کے دروازے پر ہو رہا ہے وہ کل ہمارے دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔ ہمیں ان مظلوموں کی آواز بننا ہے جن کے پاس میڈیا نہیں جو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ نہیں بن سکتے جو اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر نہیں آتے۔
ہمیں دنیا کو بدلنا ہے۔ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے ایک فرض ہے۔ ہمیں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی ہے چاہے وہ اسرائیل کرے یا حماس روس کرے یا نیٹو امریکا کرے یا چین ایران کرے یا بھارت۔ کیونکہ جب ہم ظلم کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہم اس کے شریک ہو جاتے ہیں۔
یہ دنیا یہ زمین سب انسانوں کی مشترکہ وراثت ہے۔ اسے خون سے نہیں محبت سے سینچنے کی ضرورت ہے اور یہ کام صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو لفظ سے محبت کرتے ہیں جو سچ کے لیے قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں اور جو جانتے ہیں کہ خاموشی سب سے بڑا گناہ ہے۔
اس کالم میں، میں نے دنیا بھر میں جاری ظلم اور بے حسی کا ذکر کیا ہے۔ کوشش یہی ہے کہ ان زخموں پر صرف مرہم نہ رکھا جائے بلکہ ان کے پیچھے چھپے اسباب کو بے نقاب کیا جائے۔ آیندہ کالموں میں ایک ایک کر کے ان حالات ان سانحات اور ان چپ رہنے والوں پر تفصیل سے بات کرنے کا ارادہ ہے کہ سچ کہنا سچ سننا اور سچ لکھنا ہی اس دور میں سب سے بڑی مزاحمت ہے۔