غزہ پر قبضے کا اسرائیلی منصوبہ

n01206857-b.jpg

اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے اتوار 4 مئی 2025ء کو ہونے والے اجلاس میں حماس کے خلاف فوجی کارروائی کو وسعت دینے کے ایک وسیع تر منصوبے کی منظوری دی ہے، جس میں نہ صرف غزہ پر قبضے کی حکمت عملی شامل ہے، بلکہ غزہ کے شہریوں کو شمال سے جنوب کی طرف منتقل کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب غزہ پہلے ہی ایک شدید انسانی بحران سے دوچار ہے اور لاکھوں فلسطینی بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے اس منصوبے کو حماس کو شکست دینے، باقی ماندہ قیدیوں کی واپسی یقینی بنانے اور اسرائیلی دفاع کو مستحکم بنانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ منصوبے کے تحت نہ صرف غزہ میں مزید زمینی کارروائیاں کی جائیں گی بلکہ اسرائیلی فوج ریزرو اہلکاروں کی نئی بھرتی اور تعیناتی کے ذریعے اپنی عسکری قوت میں بھی اضافہ کرے گی۔ اس منصوبے کو اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے بھاری اکثریت سے منظور کر لیا ہے۔

اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی اداروں نے اس منصوبے کو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس میں تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ امداد کی ترسیل کو نجی کمپنیوں کے ذریعے کنٹرول کرنا ایک طرح کی "سیاسی بلیک میلنگ” ہے اور اس سے حماس کو انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کرنے کی گنجائش بھی ختم ہو جائے گی۔ غزہ پر حملے میں شدت کے لیے اسرائیل نے دسیوں ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق وہ نہ صرف زمین پر بلکہ زیر زمین موجود حماس ڈھانچے کو بھی مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی معاشرے میں اس نئی حکمت عملی کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ ہزاروں ریزرو اہلکاروں نے وزیرِاعظم کو جنگ بندی اور باقی رہ جانے والے 59 اسرائیلی قیدیوں کی بازیابی کے لیے معاہدے کا مطالبہ کرتے ہوئے کھلے خطوط پر دستخط کیے ہیں۔

سابق موساد چیف ڈینی یاتوم اور دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے سیاسی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دے رہی ہے۔ ان کے مطابق جنگی حکمت عملی میں شدت سے نہ صرف قیدیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے بلکہ اسرائیلی سوسائٹی میں موجود دراڑیں مزید گہری ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے ادارے "ہیومینٹیرین کنٹری ٹیم” نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کے باعث غزہ میں خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے۔ امدادی اداروں نے اسرائیلی اقدامات کو قحط میں مبتلا کرنے کی پالیسی قرار دیتے ہوئے اسے ممکنہ جنگی جرم سے تعبیر کیا ہے۔ حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق اب تک غزہ میں 52 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں، جبکہ 18 مارچ 2025ء سے اب تک 2,400 سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزہ میں ہونے والے ظلم اور جارحیت کے خاتمے کے لیے مسلمان عوام اور حکمران اسرائیل میں لگنے والی آگ کے پھیل جانے، سیلاب سے پورے اسرائیل میں تباہی آنے اور زمین کے پھٹ جانے کی دعاؤں کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں۔ یہ بددعائیں یقیناً بہت ضروری ہیں، تاہم یہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی بے بسی کا نوحہ بھی پڑھتی ہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں، ابھی تقریباً 70 برس قبل برصغیر کی تقسیم کے وقت لاکھوں مسلمان بے دردی سے قتل کیے گئے، لاکھوں بے سرو سامانی کے عالم میں اپنا گھر بار، اجداد کی قبور، کاروبار سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان میں متمکن ہوئے۔ میرے علم کے مطابق تو کسی بھی مسلمان یا غیر مسلم ملک نے اس قتل و غارت کو روکنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

مہاجرین کی بحالی بھی ہمیں خود ہی کرنی پڑی۔ راجہ صاحب محمود آباد اور دیگر صاحب ثروت شخصیات نے اپنا سب کچھ پاکستان کی بحالی پر لگا دیا۔ اقوام متحدہ، عرب ممالک، عجمی مسلمان کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آیا تھا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ اس کے برعکس جب 1916ء میں برصغیر میں تحریک خلافت کا اعلان ہوا تو برصغیر والوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ترک موالات کیا، ہندوستان کو دارلکفر قرار دے کر افغانستان کی جانب ہجرت کی۔ پوری مسلم قیادت گرفتار ہوئی۔ ہجرت کی صعوبتیں جھیلیں اور افغانستان میں مشکلات سے تنگ آکر سب کچھ برباد کرکے ہندوستان واپس لوٹ آئے۔ اسے برصغیر والوں کا سیاسی شعور کہیں یا ایمان کی حدت، تاہم اب تو یہ بھی باقی نہیں رہی۔ اب تو برصغیر والوں کا بھی بد دعاؤں پر گزارہ ہے۔

اسرائیل کے کچھ شہروں میں آگ لگی تو دعائیں شروع کر دیں کہ اے اللہ اس آگ کو پورے اسرائیل تک پھیلا دے، ان کا سب کچھ خاکستر ہو جائے۔ کچھ علاقوں میں طغیانی آئی، جو نہیں معلوم آج آئی ہے یا پرانی تو دوستوں نے دعائیں شروع کر دیں کہ یہ طغیانی پورے اسرائیل کو بہا کر لے جائے۔ بے شک اسرائیل جو مظالم کرچکا ہے، وہ عذاب الہیٰ کا حقدار ہے، تاہم ہمارا عذاب یہ ہے کہ ہم مسلمان ایک ارب سے زیادہ ہونے کے باوجود اب اسرائیل کے خلاف عملا کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ ایک سینیئر تجزیہ کار اور انقلابی دوست سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر فلسطین میں ایک یا دو لاکھ انسان قتل ہو جائیں تو امید ہے کہ مغربی دنیا ہوش کرے گی اور اس کے بعد مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

انقلابی دوست کے مطابق یحییٰ سنوار نے اس بات سے آگاہی کے ساتھ ہی 7 اکتوبر  2023ء کو اسرائیل کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ اس بات پر اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے میں نے اس دوست سے نہایت ادب سے پوچھا کہ اگر دو لاکھ فلسطینیوں کے قتل کے بعد بھی کچھ نہ بدلا تو پھر کیا ہوگا۔؟ ان کا کہنا تھا کہ آپ دیکھتے جائیں۔ چلیں دیکھتے جاتے ہیں، تاہم برصغیر کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ لاکھوں قتل ہوگئے، لاکھوں کو گھر بار چھوڑنا پڑا، تاہم کوئی ملک ٹس سے مس نہیں ہوا، نہ ہی کسی نے پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے ہندوستان یا پاکستان کی کوئی مدد کی۔ ہمیں دنیا بالخصوص عالم اسلام کے حالات کو حقیقت کی عینک سے دیکھتے ہوئے ضروری اقدامات لینے ہوں گے، جذباتی سوچ اور اقدامات ہمیں پہلے ہی بہت نقصان پہنچا چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے